’میں رحم کی بھیک مانگتا رہا، وہ کپل مشرا کا نام لے کر مجھے مارتے رہے‘ محمد زبیر کی آپ بیتی

زبیر کے گھر واپس لوٹنے سے پہلے ہی جنونی بھیڑ نے گھیر لیا اور اس پر حیوانوں کی طرح ٹوٹ پڑے، لاٹھی، راڈ وغیر سے اسے بیہوش ہونے تک مارا گیا، وہ رحم کی بھیک مانگتا رہا لیکن حملہ آواروں کو ترس نہیں آیا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

راجدھانی دہلی میں اتوار کے روز جب تشدد کا ننگا ناچ شروع ہوا تھا تو ایک تصویر منظر عام پر آئی تھی جسے دیکھ کر ہر کسی کی روح کانپ گئی۔ یہ تصویر رائٹرز کے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی نے لی تھی اور اس میں ایک شخص کو حملہ آواروں کی بھیڑ نے گھیر رکھا ہے اور اسے لاٹھی ڈنڈوں اور بیس بال کے بلے سے بری طرح مار رہے ہیں۔ متاثرہ شخص نے سفید کرتا پائجامہ پہنے ہوا ہے جو خون سے جگہ جگہ سے سرخ ہو چکا ہے اور وہ اپنے سر پر دونوں ہاتھ رکھ کر زمین پر سر رکھے بیٹھا ہوا ہے۔

اس تصویر کو دیکھ کر ہر ذی شعور شخص بے چین ہو گیا تھا۔ تاہم معجزاتی طور پر اس شخص کی جان بچ گئی۔ بری طرح سے زخمی ہونے والے اس شخص کا نام محمد زبیر ہے۔ محمد زبیر کے ساتھ 24 فروری کو جو کچھ بھی ہوا وہ اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، اب اس نے اپنی آپ بیتی سنائی ہے۔


زبیر 24 فروری کو جب اپنے گھر سے باہر نکلا تو اس کے ذہن میں صرف ان کے بچوں کا مطالبہ پورا کرنے کی بات تھی۔ دراصل، زبیر کے بچوں نے گھر واپس آتے ہوئے حلوہ اور پراٹھا لانے کو کہا تھا۔ لیکن گھر واپس آنے سے پہلے ہی ہجوم نے اسے گھیر لیا اور لاٹھیوں اور سلاخوں سے اس پر ٹوٹ پڑے۔ زبیر حملہ آوروں سے رحم کی بھیک مانگتا رہا لیکن وہ نہیں رکے اور اسے بیہوش ہونے تک مارتے رہے۔ زبیر کو جب ہوش آیا تو وہ دہلی کے جی ٹی بی اسپتال میں تھا۔ اسے اپنے اوپر ہونے والے حملہ کے بارے میں زیادہ کچھ یاد نہیں ہے لیکن وہ اپنی ہی وائرل ہو رہی تصویر کو دیکھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا۔

انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق تشدد کا شکار ہونے والے محمد زبیر کا کہنا تھا، ’’وہ لوگ مجھے اس وقت تک مارتے رہے جب تک میں نیم جان نہیں ہو گیا۔ جب میں نے رحم کی التجا کی تو وہ مجھے اور زیادہ بری طرح سے مارنے لگے۔ وہ لوگ مذہبی شناخت کی گالیاں دے رہے تھے اور کپل مشرا کے نام سے مجھے پیٹ رہے تھے۔ مجھے اس کے علاوہ اور کچھ یاد نہیں ہے۔ میں صرف یہ کر رہا تھا کہ میرے بچے سلامت رہیں۔ مجھ میں اپنی وائرل ہو رہی تصویر دیکھنے کی ہمت نہیں ہے ... میرے پیر درد سے کانپ رہے ہیں۔‘‘


انڈین ایکسپریس کے مطابق 24 فروری کی صبح محمد زبیر قریبی مسجد میں نماز پڑھنے گھر سے نکلا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق مسجد سے واپسی کے دوران وہ سی اے اے حامی بھیڑ کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس حملے میں زبیر کے سر، بازوؤں، کاندھوں اور پیروں پر شدید چوٹیں آئی ہیں۔ فی الحال، زبیر کو اسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے اور اب وہ مکمل صحت یابی کے لئے اپنے چچازاد بھائی کے پاس اندرا پوری میں ہے۔

زبیر 5 اور 2 سال کی 2 بچیوں اور ایک 4 سالہ بچے کا باپ ہے اور اپنی حفاظت کے پیش نظر اپنے بیوی بچوں کو اتر پردیش میں واقع اپنے گاؤں میں پہنچا چکا ہے۔ جس وقت زبیر پر حملہ ہوا وہ اپنی بیوی کو واپس لینے کے لئے جانے والا تھا، جوکہ اس وقت خاندان کی ایک شادی میں گئی ہوئی تھی۔

زبیر کہتے ہیں کہ ان کا کسی پارٹی یا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ نویں پاس ہے اور کسی نہ کسی طرح مزدوری کر کے اپنا گھر چلاتا ہے۔ زبیر نے کہا، ’’میری بیوی اور بچے ان سب سے بہت دور ہیں۔ میں کسی بھی طرح سے سیاسی آدمی نہیں ہوں۔ میں صرف نماز پڑھنے گیا تھا اور بچوں کے لئے مٹھائی لے کر واپس آیا تھا۔ میں نے سوچا کہ میرے بچے مٹھائیاں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں اب اپنے بچوں کو کب دیکھ سکوں گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */