قدیم شہر حیدرآباد: رمضان میں ہوٹلوں پر پردے کی روایات تبدیل!

رمضان المبارک کے آغاز کے بعد اگرچہ مساجد میں عبادت کرنے والوں کا ہجوم دیکھا جا رہا ہے لیکن ہوٹلوں میں دن کے اوقات میں رمضان المبارک کے احترام پر ابھی بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

حیدرآباد: وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ روایات اور رواج بھی بدلنے لگے ہیں۔ جو نئی روایات اور رواج کے پاسدار ہیں، وہ پرانی روایات پر قدغن لگا رہے ہیں۔ شہر حیدرآباد اب رواج اور روایات کو بدلنے والا شہر بن گیا ہے کیونکہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پرانے اقدار کو نئی نسل بدل رہی ہے اور نئے اقدار کو گلے لگا رہی ہے۔ قدیم شہر حیدرآباد کا کئی برسوں سے یہ کلچر تھا کہ یہاں ماہ مقدس رمضان المبارک کے موقع پر روزہ داروں کے احترام اور غیر روزہ دارافراد کے کھلے عام کھانے پینے سے بچنے کے لئے ہوٹلوں پر پردے ڈال دیئے جاتے تھے۔ یہ کلچر اب تبدیل ہوگیا ہے۔

اب پرانے شہر میں کسی بھی ہوٹل میں رمضان کے دوران پردہ لگا ہوا نظر نہیں آتا اور دوپہر کے اوقات میں بھی غیر روزہ دار، ان ہوٹلوں میں مزہ سے کھلے عام کھاتے پیتے ہیں۔ وہ روزہ دار کا احترا م بھی نہیں کرنا چاہتے۔


اس طرح شہر کی اس قدیم روایت سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ پرانے شہر حیدرآباد کے بزرگوں نے بتایا کہ نظام حیدرآباد کے دور سے ہی ہوٹلوں پر پردے کا چلن تھا اور لوگ اس ماہ کے دوران روزہ داروں کا احترام کرتے ہوئے ہوٹلوں میں کھانے پینے سے گریز کرتے تھے لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ بھی بدل گئی، روایات تبدیل ہوگئی اور نیا کلچر فروغ پا گیا ہے۔

پرانے شہر میں حالیہ برسوں کے دوران ہوٹلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان ہوٹل مالکین سے جب اس تعلق سے استفسار کیا گیا تو وہ حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ کئی ایسے ہوٹل ہیں جن کے مالکین اس تعلق سے بالکل بے خبر ہیں، وہ جانتے ہی نہیں کہ ایسا کبھی ہوا کرتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں کوئی بھی گاہک رمضان میں ہوٹل میں پردے لگانے کو پسند نہیں کرتا۔ ماہ صیام میں دن کے اوقات میں ان ہوٹلوں میں بلا روک ٹوک کھانے پینے کی اشیا ملتی ہیں۔ پرانے ہوٹلوں کا بھی حال نئے ہوٹلوں جیسا ہوگیا ہے، پرانے ہوٹلوں میں بھی یہ طریقہ کار اب نظر نہیں آرہا ہے۔


اب تو صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ ہوٹل سے منسلک ہی کھانے پینے کی اشیا بھی لگائی جا رہی ہیں۔ ہوٹل مالکین نے واضح کیا کہ ان بدلتی قدروں کے سبب وہ مجبور ہیں۔ اس خصوص میں مولانا انوار احمد نائب شیخ التفسیر جامعہ نظامیہ نے یواین آئی کو بتایا کہ پہلے دور میں ہوٹلوں میں مسافرین، مریضوں اور غیر روزہ دار گاہکوں کے لئے پردے لگائے جاتے تھے تاکہ رمضان اور بالخصوص روزہ داروں کی بے احترامی نہ ہونے پائے، تاہم بدلتے وقت اور قدروں کے ساتھ ساتھ ایسا نہیں ہو رہا ہے۔

ایک سرکردہ صحافی شجیع اللہ فراست نے بتایا کہ سماجی اقدار میں تبدیلی آگئی ہے، پرانی چیزیں بدل گئی ہیں۔ پہلے تمام افراد بالخصوص ہوٹل مالکین ماہ مقدس رمضان کا احترام کیا کرتے تھے تاہم اب حساسیت ختم ہوگئی ہے اور معاشرہ میں اخلاقی انحطاط پیدا ہوگیا ہے۔


انہوں نے کہا کہ یہ ہماری تہذیب کا حصہ تھا اور رمضان میں بے روزہ داروں کی جانب سے کھل کر کھانے پینے کی اشیا کے استعمال سے گریز کیا جاتا تھا جس کے لئے پردے ہوٹلوں میں لگائے جاتے تھے تاہم نئے زمانے کی نئی چمک دمک اور نئی روشنی والی نئی نسل نے اس کو فراموش کردیا ہے۔ پہلے لوگوں میں آداب شریعت کا لحاظ تھا اور کھلے عام اشیائے خورد و نوش کا استعمال کرنے سے گریز کیا جاتا تھا لیکن صورتحال اب بدل گئی ہے۔

رمضان المبارک کے آغاز کے بعد اگرچہ مساجد میں عبادت کرنے والوں کا ہجوم دیکھا جا رہا ہے لیکن ہوٹلوں میں دن کے اوقات میں رمضان المبارک کے احترام پر ابھی بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ پرانے شہر کے تجارتی علاقوں میں اب بھی ہوٹلوں میں بغیر پردہ کے رمضان میں کاروبار کیا جارہا ہے اور رمضان کے احترام میں ہوٹلوں میں پردے لگانے کا طریقہ قصہ پارینہ بن گیا ہے، جلد ہی یہ ہماری قدیم تہذیب کا طریقہ کار ماضی کی دلکش یاد بن جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔