کشمیر میں درجنوں لیڈر نظر بند، وزارت داخلہ کے پاس کوئی جانکاری نہیں!

ایک آر ٹی آئی کے جواب میں وزارت داخلہ نے یہ حیران کن انکشاف کیا ہے کہ اسے اس بات کی کوئی خبر نہیں کہ کشمیر میں کتنے لیڈر نظر بند ہیں یا پھر انھیں کس جگہ پر نظر بند کر کے رکھا گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

جموں و کشمیر میں ٹیلی مواصلات سروس اور انٹرنیٹ بند کرنے، ریڈیو اور سیٹلائٹ ٹی وی خدمات پر پابندی، سیاحوں کو ریاست سے باہر جانے اور سیاسی لیڈروں کو حراست میں لینے کا فیصلہ کس نے دیا، اس بارے میں وزارت داخلہ کے پاس کوئی جانکاری نہیں ہے۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس حراست میں لیے گئے لیڈروں کے نہ تو نام ہیں اور نہ ہی یہ خبر ہے کہ انھیں کہاں رکھا گیا ہے۔ وزارت نے یہ باتیں ایک آر ٹی آئی میں پوچھے گئے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہیں، اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں جموں و کشمیر انتظامیہ سے رابطہ قائم کیا جائے۔

ایک آر ٹی آئی کارکن نے وزارت کو عرضی دے کر اس بارے میں جاری ہدایات و احکامات یا صلاح و مشورے کی کاپی طلب کی تھی۔ لیکن وزارت داخلہ کے جموں و کشمیر ڈویژن کے دو مرکزی پی آئی او نے واضح لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ ان کے پاس ان سب کے بارے میں کوئی اطلاع یا جانکاری دستیاب نہیں ہے۔


انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق وزارت نے کہا ہے کہ ’’یہ سبھی جانکاریاں جموں و کشمیر حکومت کے پاس ہو سکتی ہیں۔‘‘ لیکن آر ٹی آئی عرضی کو جموں و کشمیر حکومت کے پاس بھیجا نہیں جا سکتا کیونکہ وہاں آر ٹی آئی ایکٹ 2005 نافذ ہی نہیں ہے۔ جواب کے مطابق اس بارے میں عرضی جموں و کشمیر کے آر ٹی آئی قانون کے مطابق داخل کی جا سکتی ہے، لیکن ایسا صرف جموں و کشمیر کے باشندے ہی کر سکتے ہیں۔

اخبار کے مطابق جموں و کشمیر کے ایک افسر نے بتایا کہ آر ٹی آئی ایکٹ 2005 سمیت سبھی مرکزی قانون جموں و کشمیر میں اسی وقت نافذ ہوں گے جب 31 اکتوبر 2019 کو ریاست کو مرکز کے ماتحت ریاست بنائے جانے کا فیصلہ اثر انداز ہوگا۔


آر ٹی آئی عرضی داخل کرنے والے ونکٹیش نائیک نے ’دی ہندو‘ اخبار کو بتایا کہ جموں و کشمیر میں گزشتہ 19 دسمبر 2018 سے صدر راج نافذ ہے، ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وزارت داخلہ کے پاس ان سب پابندیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔

ونکٹیش نے ’دی ہندو‘ کو بتایا کہ ’’صدر راج نافذ ہونے کے بعد گورنر اور ریاست کی قانون سازیہ کے سارے اختیارات صدر جمہوریہ کے پاس آ گئے ہیں۔ ریاستی انتظامیہ کا کام مرکزی حکومت کی ہدایت میں کام کرنا رہ گیا ہے، جو کہ اس وقت گورنر کے ذریعہ ہو رہا ہے، اور صرف افسر ہی کام کر رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’جموں و کشمیر کے بارے میں دیئے گئے کسی بھی حکم کی کاپی وزارت داخلہ کے جموں و کشمیر ڈویژن کو بھی بھیجی جانی چاہیے، وہ بھی تب جب کہ ٹیلی مواصلات خدمات کے بند کرنے یا سیاحوں کو ریاست چھوڑنے کے حکم اگر وزارت داخلہ نے نہیں دیئے ہیں۔ ایسے میں سنٹرل پی آئی او کا جواب حقیقت سے بہت الگ لگتا ہے۔‘‘


نائیک نے یہ آر ٹی آئی عرضی 30 اگست کو داخل کی تھی۔ انھوں نے جموں و کشمیر کے بارے میں جاری احکامات کی کاپیوں کے علاوہ ان لیڈروں اور سیاسی کارکنان کے نام بھی مانگے تھے جنھیں ریاست میں دفعہ 370 ختم کیے جانے کے سلسلہ میں حراست میں لیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انھیں جہاں رکھا گیا ہے، اس جگہ کے نام بھی پوچھے گئے تھے۔ اس عرضی کے جواب میں وزارت کے پہلے سی پی آئی او ٹی شری کانت نے یہ کہتے ہوئے عرضی کو دوسرے سی پی آئی او کے پاس بھیج دیا تھا کہ ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ دوسرے سی پی آئی او نے بھی یہ کہہ کر عرضی کا جواب دے دیا کہ ان کے پاس بھی ایسی جانکاریاں دستیاب نہیں ہیں۔ اتنا ہی نہیں، ان سی پی آئی او نے عرضی دہندہ کو اس بارے میں جموں و کشمیر حکومت سے رابطہ کرنے کے لیے کہا۔

قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل آر ٹی آئی کارکن نوتن ٹھاکر کی عرضی پر بھی وزارت داخلہ نے بغیر کوئی خاص وجہ بتائے کوئی بھی جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 Oct 2019, 6:58 PM