اے ایم یو: ہندووادی تنظیموں کے ہنگامہ کے بعد پولس کی ہوائی فائرنگ 

حیرانی کی بات ہے کہ پولس نے بھی ہندووادی طاقتوں کا ہی ساتھ دیا اور اے ایم یو طلباء پر ہی لاٹھی چارج کیا جس سے طلباء غم و غصے میں مبتلا ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

ابو ہریرہ

علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس وقت ہنگامہ کے حالات پیدا ہو گئے جب کچھ نام نہاد ہندو وادی تنظیم سے منسلک ہتھیار بند افراد نے اشتعال انگیز نعرے بازی کرتے ہوئے کیمپس میں داخل ہونے کی نا کام کوشش کی۔ اس سے قبل ان ہندو وادیوں نے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا پتلا بھی نذر آتش کیا۔ پھر جب یہ شرپسند افراد کیمپس کی طرف بڑھے تو علاقائی پولس فورس ان کے ہمراہ رہ کر رہنمائی کرتا ہوا ان کے ساتھ موجود تھا ۔ان لوگوں کے کیمپس کی طرف بڑھنے کی خبر جب اے ایم یو طلباء کو ہوئی تو وہ اس کو روکنے کے لئے باب سید پر پہنچ گئے۔ طلباء کی کثیر تعداد اور خود کو محاصرے میں پڑتا دیکھ کر ہندو وادی تنظیم کے افراد الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوئے ۔

حیرت کی بات ہے کہ پولس فورس نے بھی ایسے وقت میں ہندو وادیوں کا ساتھ دیا اور اے ایم یو طلباء کو روکنے کی کوشش کی۔ اس حرکت سے اے ایم یو طلباء اور پولس کے درمیان تصادم کی حالت پیدا ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے باب سید سے لے کر اے ایم یو سرکل تک پورا علاقہ پولس فورس سے بھر گیا۔پولس نے طلباء کے دباؤکے سبب کچھ فرار ہونے والے ہندو وادیوں کو انہیں بچانے کی غرض سے پکڑ کر اپنی گاڑی میں بٹھا لیا اور محفوظ لاکر انہیں تھانے سے چھوڑ دیا۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
طلبا یونین کے صدر مشکور احمد عثمانی (دائیں) اور سابق طلبا یونین صدر ماذن حسین ذیدی (بائیں) زخمی حالت میں

شرپسندوں کو بغیر کسی کارروائی کے چھوڑنے کے بعد طلباء یونین کے عہدے داران تھانہ پہنچ گئے اور پولس کی کار گزاری پر سوالات کھڑے کر دیے۔ اس دوران سینکڑوں کی تعدادمیں طلباء بھی تھانے پہنچ گئے۔ طلباءکے دباؤ کو دیکھ کر پولس فورس نے طلباء پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے انہیں کھدیڑنے کی کوشش کی لیکن طلباء ہندو وادیوں کی گرفتاری کو لے کر جمے رہے۔ پولس کی سخت کاروائی اورلاٹھی چارج کے سبب طلباء یونین صدر مشکور احمد عثمانی ،سیکریٹری محمد فہد ،سابق صدر طلباءیونین ماذن حسین زیدی ،سابق صدر فیض الحسن سمیت قریب ایک درجن طلباءکے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ پولس نے طلباء پر دباؤ بنانے کے لئے آنسو گیس کے گولے چلانے کے علاوہ ہوائی فائرنگ بھی کی ہے ۔

تھانہ سول لائنس کے انسپکٹر انچارج جاوید خان کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ فائرنگ نہیں ہوئی جبکہ ایس ایس پی کے تبادلہ ہونے کی وجہ سے انچارج ایس ایس پی ایس پی سٹی اتل کمار سریواستو سے بات نہیں ہو سکی۔خاص بات یہ ہے کہ پولس کی یہ کارگزاری اور لاپرواہی اس وقت ہے جبکہ ملک کے سابق نائب صدر جمہوریہ جناب حامد انصاری اے ایم یو میں طلباء یونین کے ذریعہ دیئے جانے والے اعزازی پروگرام میں بطور مہمان خصوصی آئے ہوئے ہیں اور جائے وقوع سے چند قدم کی دوری پر وہ قیام کئے ہیں۔ نعرے بازی اور کیمپس میں داخل ہونے پر پولس کو سابق نائب صدر جمہوریہ کی حفاظت کا خیال بھی نہیں آیا اور پولس تماش بین بنی دیکھتی رہی۔

واضح ہو کہ گذشتہ دو روز قبل بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ستیش گوتم نے اے ایم یو یونین ہال میں پاکستان کے قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر لگی ہونے کے سبب اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کو ایک خط لکھا تھا کہ جناح کی تصویر لگانے کا کیا سبب ہے اور اس کو یہاں سے ہٹایا جائے۔ حالانکہ اس پورے معاملہ پر طلباء یونین صدر مشکور احمد عثمانی نے میڈیا کو صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی یہ تصویر 1938ء میں اس وقت یونین ہال میں نصب کی گئی تھی جب انہیں اے ایم یو طلباء یونین کی جانب سے لائف ٹائم ممبر شپ دی گئی تھی۔ یہ ممبرشب ملک کے نامور افراد کو طلباء یونین کی جانب سے دی جا چکی ہے۔ اس میں ہندوستان کے بابائے قوم ایم کے گاندھی،ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو،خان عبدالغفار خان،پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد سمیت متعدد افراد کو یہ ممبر شپ دی گئی ہے اور سبھی کی تصاویر یہاں یونین ہال میں نصب ہیں۔ حالانکہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بھی میڈیا کو بتایا گیا ہے کہ طلباء یونیین ایک خود مختار تنظیم ہے اور اس کا اپنا ایک آئین ہے۔ اس میں اے ایم یو انتظامیہ کا کسی طرح کا کوئی دخل نہیں ہے۔ پورے معاملہ پر صاف صفائی کے بعد چند شر پسند افراد نے اے ایم یو میں ایک مرتبہ پھر سے آگ لگانے کی کوشش کی ہے۔پورے معاملہ پر پولس اور ضلع انتظامیہ سمیت اے ایم یو انتظامیہ نظر بنائے ہوئے ہے۔ طلباء یونین صدر و دیگر اہم عہدیداران کے زخمی ہونے کے سبب طلباء میں غصہ بنا ہوا ہے۔ پورے اے ایم یو کیمپس کے گرد بڑی تعداد میں پولس فورس تعینات ہے۔خبر لکھے جانے تک طلباء کو علاج کے لئے میڈیکل کالج میں داخل کر دیا گیا تھا۔ کیمپس میں کشیدگی قائم ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 May 2018, 8:10 PM