ہریانہ کے کسانوں کا مودی حکومت پر دھوکہ دہی کرنے کا الزام، ایم ایس پی کے لئے تحریک شروع کرنے کا اعلان

ہریانہ کے کسانوں نے ایک بار پھر سڑک پر آکر آواز اٹھائی ہے۔ پنچکولہ کی سڑکوں پر اترے پورے ہریانہ کے کسانوں نے مودی حکومت پر دھوکہ دہی کرنے کا الزام عائد کیا

تصویر دھیریندر اوستھی
تصویر دھیریندر اوستھی
user

دھیریندر اوستھی

ہریانہ کے کسانوں نے ایک بار پھر سڑک پر اتر کر مودی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ پنچکولہ کی سڑکوں پر اترے پورے ہریانہ کے کسانوں نے مودی حکومت پر دھوکہ دہی کرنے کا الزام عائد کیا۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت نے کسانوں سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کسانوں نے کہا کہ یہ پھر بڑی تحریک سے پہلے کسانوں کی ریہرسل ہے۔ ریاست میں پنچایتی انتخابات کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں کسانوں کو دیکھ کر انتظامیہ بھی بوکھلا گئی ہے۔ حکومت کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ اتنے کسان یہاں جمع ہوں گے۔ کسانوں کے اجتماع نے اس حقیقت کی بھی تصدیق کر دی ہے کہ کسانوں میں حکومت کے خلاف بے اطمینانی کی چنگاری سلگ رہی ہے۔

مرکز کے تین زرعی قوانین کے خلاف تحریک کے دو سال مکمل ہونے پر راج بھون مارچ میں پنچکولہ کی سڑکوں پر جمع کسانوں کے ہجوم نے ایک مرتبہ پھر کسان تحریک کی یادیں تازہ کر دیں۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ حکومت کی یقین دہانی پر انہوں نے دہلی کی سرحدوں پر مورچے ختم کر دیے ہیں لیکن مودی حکومت نے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ حکومت نے کسانوں کو دھوکہ دیا ہے۔

دریں اثنا، کسان لکھیم پور کھیری کے قاتلوں کو پھانسی دو، قاتل حکومت مردہ آباد اور اڈانی امبانی مردہ باد کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ کسانوں نے کہا کہ لکھیم پور کھیری میں چار کسانوں اور ایک صحافی کو کچلنے کے الزام میں مرکزی وزیر کو گرفتار کر کے برطرف کیا جانا چاہئے۔ کسان کہہ رہے تھے کہ وہ مرکزی حکومت سے ایم ایس پی لے کر رہیں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کسانوں کے مکمل قرض معاف کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ کہا گیا ’’مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ کسانوں سے مشاورت کے بعد ہی بجلی کا قانون لائیں گے لیکن وہ بجلی سے متعلق بل پیش کر چکے۔ ایم ایس پی پر ایک کمیٹی بنائی گئی لیکن سب جانتے ہیں کہ اس کمیٹی میں کون کون شامل ہیں۔

تین زرعی قوانین کے خلاف تحریک شروع کرنے کے دو سال بعد بھی ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔ کسانوں نے اعلان کیا کہ ایم ایس پی کو لے کر ملک میں ایک بڑی لڑائی ہونے والی ہے۔ یہ اس لڑائی سے پہلے کی ریہرسل ہے۔ اس کے لیے ہم گاؤں گاؤں جائیں گے اور لوگوں سے بات کریں گے۔ کسانوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت کسانوں کو کارپوریٹ گھرانوں کے سامنے بکریوں کی طرح کھڑا کرنا چاہتی ہے۔ ملک کی حالت ایسی ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی 80 کروڑ لوگوں کو اس حکومت کو راشن دینا پڑ رہا ہے۔ حکومت کو اس کے لیے ڈوب مرنا جانا چاہیے! کسانوں کا کہنا تھا کہ کاشت کی بڑھتی ہوئی لاگت اور ان کی فصلوں کی مناسب قیمت نہ ملنے کی وجہ سے 80 فیصد سے زائد کسان بہت زیادہ مقروض ہیں، جس کی وجہ سے وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ کسانوں نے بجلی ترمیمی بل 2022 کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔


کسانوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے 9 دسمبر 2021 کو ایک خط میں سنیوکت کسان موچہ کو تحریری یقین دہانی کرائی تھی کہ مورچہ کے ساتھ بات چیت کے بعد ہی اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس کے باوجود حکومت نے کسانوں سے مشاورت کے بغیر یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا۔ کسانوں نے مطالبہ کیا کہ لکھیم پور کھیری قتل کیس میں جیل میں بند بے گناہ کسانوں کو فوری رہا کیا جائے اور ان کے خلاف درج مقدمات واپس لیے جائیں۔ نیز حکومت کو چاہیے کہ وہ شہید کسانوں کے اہل خانہ اور زخمی کسانوں کو معاوضہ دینے کا وعدہ پورا کرے۔ کسانوں کے احتجاج کے دوران بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں کسانوں کے خلاف فرضی مقدمات درج کیے گئے ہیں، انہیں فوری طور پر واپس لیا جائے۔ سان تحریک کے دوران شہید ہونے والے تمام کسانوں کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے اور ان کی بحالی کا انتظام کیا جائے۔ سنگھو بارڈر پر شہدا کی یادگار کی تعمیر کے لیے زمین الاٹ کی جائے۔

کسانوں نے مطالبہ کیا کہ تمام درمیانے، چھوٹے اور پسماندہ کسانوں اور زرعی مزدوروں کے لیے ماہانہ 5000 روپے کی پنشن اسکیم نافذ کی جائے۔ حکومت کو خشک سالی، سیلاب، زیادہ بارشوں، فصلوں سے متعلق بیماریوں وغیرہ کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے ایک جامع اور موثر فصل انشورنس اسکیم نافذ کی جائے۔ کسانوں نے کہا کہ حکومت ہمارے صبر کا امتحان نہ لے، اگر حکومت کسانوں کے تئیں اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتی رہی تو کسانوں کے پاس احتجاج کو تیز کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔

تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کے دوران شہید ہونے والے کسانوں کے اہل خانہ بھی سڑک پر موجود نظر آئے اور انہوں نے حکومت کو انتباہ دیا۔ کیتھل سے آئے ایک شہید کسان کی اہلیہ مکیش نے بتایا کہ ان کے شوہر کو ڈیڑھ سال قبل شہید کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’چاہے میری جان چلی جائے، ہم اس لڑائی میں کسانوں کے ساتھ ہیں۔‘‘ سنکیوکت مورچہ کے بینر تلے آنے والی کسانوں کی 13 تنظیموں کے ساتھ کھاپوں کے نمائندوں نے بھی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ کسانوں کی جدوجہد کو انجام تک پہنچائیں گے۔ خواتین کسانوں کا بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلنا ایک بڑی تحریک کا واضح اشارہ تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔