گوا اسمبلی انتخاب: بی جے پی کو 67 فیصد عوام نے کیا خارج، پھر بھی سب سے بڑی پارٹی

گوا میں بی جے پی 10 سال کی اقتدار مخالف لہر کو روکنے میں کامیاب رہی اور 19 سیٹیں اپنی جھولی میں ڈال لیں، آزاد امیدواروں اور ایم جی پی کی ممکنہ مدد کے سہارے پارٹی اقتدار میں واپسی کی راہ تلاش رہی ہے

پرمود ساونت / آئی اے این ایس
پرمود ساونت / آئی اے این ایس
user

آدتیہ آنند

گوا میں بی جے پی 10 سال کی اقتدار مخالف لہر کو روکنے میں کامیاب رہی اور 19 سیٹیں اپنی جھولی میں ڈال لیں۔ آزاد امیدواروں اور ایم جی پی کی ممکنہ مدد کے سہارے پارٹی اقتدار میں واپسی کی راہ تلاش رہی ہے۔ ووٹوں کی تقسیم کے تعلق سے بات کی جائے تو میدان میں ایسی کئی جماعتیں موجود تھیں جن کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ ہوا۔ اپوزیشن کی جانب سے بھرپور مہم چلانے کے باوجود حکمراں جماعت 33 فیصد ووٹوں کو اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب رہی۔ سنکیلیم حلقہ انتخاب سے بی جے پی کے حق میں توقعات کے مطابق فرق سے جیت حاصل نہ ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ ڈاکٹر پرمود ساونت مضبوط لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

نتائج پر نظر ڈالیں تو معلوم چلتا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی نے جو بھی سیٹیں جیتی ہیں وہاں بڑا فرق رہا جبکہ گوا کی سیاست میں نئی پارٹیوں عام آدمی پارٹی اور ’ریوالیوشنری گوانز پارٹی‘ نے بہت ہی کم فرق سے جیت حاصل کی ہے۔

گوا کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر رماکانت کھالیپ نے ووٹروں کی فیصلہ کن ووٹنگ کو کانگریس کی شکست کی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا ’’کئی مقامات پر ووٹوں کی تقسیم ہوئی ہے لیکن کانگریس کو یہ سمجھنے کے لیے خود کا جائزہ لینا ہوگا کہ اس کے اقدامات اسے اقتدار میں لانے میں کیوں ناکام رہے۔ کچھ غلطیوں میں امیدواروں کا انتخاب، زمینی سطح پر پارٹی کی تعمیر وغیرہ شامل ہیں۔‘‘


سیاسی تجزیہ کار اور سابق ایم ایل اے رادھاراؤ گریسیاس نے نشاندہی کی کہ نئے مفتوح پرتگالی علاقوں مثلاً پرنیم، بیچولم، ساٹاری، پونڈا وغیرہ میں رہنے والے عوام کے پاس سیاسی جماعتوں کے معاملہ میں متبادل موجود تھا۔ گریسیاس نے کہا، ’’عوام نے اگر بی جے پی نہیں تو ایم جی پی یا کانگریس کو ووٹ دیا لیکن جنوبی گوا میں کیتھولک اکثریتی قدیمی مفتوح علاقوں کے لیے بی جے پی اور ایم جی پی مختلف وجوہات کی بنا پر قابل قبول نہیں تھیں۔ یہاں کانگریس ناکام ہونے کے باوجود عوام کے لیے واحد انتخاب تھی۔ ٹی ایم سی اور عام آدمی پارٹی کی موجودگی نے ووٹر کو ایک متبادل فراہم کیا۔ مستقبل میں اس کی وجہ سے کانگریس کو جنوبی گوا کے سالسیٹ تعلقہ میں بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے، جبکہ اسے پارٹی کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔‘‘

ماہر تعلیم اور سیاسی مبصر ڈاکٹر منوج کامت کہتے ہیں کہ گوا کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کانگریس نے بی جے پی مخالف ووٹ شیئر کو حاصل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا اور اس حوالہ سے حکمت عملی کا فقدان نظر آیا۔ انہوں نے کہا "اگر آپ حالات پر نظر ڈالیں تو بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کا ووٹنگ فیصد مستقل رہا ہے لیکن کانگریس کا ووٹ فیصد کم ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ کانگریس ان چند حلقوں میں جارحانہ انداز میں تشہیر چلانے میں ناکام رہی جہاں ہار جیت کا فرق بہت کم رہا ہے۔ پارٹی کو زیادہ جارحانہ ہونا چاہیے تھا اور اپنے بیانیے کو پوری شدت سے عوام تک پہنچانا چاہئے تھا۔‘‘


ڈاکٹر کامت نے کہا کہ مائیکل لوبو کے بی جے پی سے کانگریس میں شامل ہونے کی وجہ سے بھلے ہی باردیز میں پارٹی کی سیٹیوں میں اضافہ ہو گیا لیکن کانگریس کو اپنے گڑھ سالسیٹ میں عام آدمی پارٹی اور ٹی ایم سی کی وجہ سے ہونے والی تقسیم کے سبب ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا ’’دوسری طرف عام آدمی پارٹی نے سالسیٹ میں کانگریس کے ووٹوں کو تقسیم کیا اور دو سیٹوں پر جیتنے میں کامیاب ہوئی لیکن پارٹی نے اپنے کنوینر راہل مہامبرے کے علاقہ شمالی گوا پر توجہ مرکوز رکھی اور جنوبی گوا کے کیتھولک اکثریتی علاقوں سے دور رہی جس کی وجہ سے اسے ان علاقوں میں ایک بھی سیٹ حاصل نہیں ہوئی۔‘‘ ڈاکٹر کامت کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے اپنی زمینی سطح پر مخصوص حکمت عملی کے دم پر ان انتخابات میں جیت حاصل کی ہے اور اسی وجہ سے کانگریس کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔

گوا یونیورسٹی سے وابستہ گوا بزنس اسکول کے پروفیسر نیلیش بورڈے کا کہنا ہے کہ نتائج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں نے کانگریس یا بی جے پی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا "میرا ماننا ہے کہ کانگریس زمین پر کھیلنے کے بجائے دماغی کھیل کھیلنے میں زیادہ ملوث رہی اور یہی بات اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ بھی لے بی جے پی جیت رہی ہے لیکن اسے صرف 33 فیصد لوگوں نے ہی پسند کیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گوا کے کے 67 فیصد لوگوں نے بی جے پی کو ناپسند کی ہے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ 67 فیصد لوگ متحد نہیں ہو سکے اور 2، 4 اور 6 فیصد میں تقسیم ہو گئے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔