زرعی قوانین: مودی حکومت نے پیش کی عارضی روک کی تجویز، کسان لیڈران کل لیں گے فیصلہ!

کسانوں کے ساتھ دسویں دور کی بات چیت کے بعد پرامید مرکزی وزیر زراعت نریندر تومر نے کہا کہ ’’جس دن کسانوں کی تحریک ختم ہوگی، وہ ہندوستانی جمہوریت کی جیت کا دن ہوگا۔‘‘

غازی پور بارڈر پر کسانوں کا مظاہرہ / تصویر آئی اے این ایس
غازی پور بارڈر پر کسانوں کا مظاہرہ / تصویر آئی اے این ایس
user

تنویر

مرکزی حکومت اور کسان لیڈروں کے درمیان 20 جنوری کو ہوئی دسویں دور کی بات چیت حالانکہ بے نتیجہ ختم ہو گئی ہے، لیکن اس میٹنگ میں مرکزی وزراء نے کسان یونینوں کے سامنے ایک ایسی تجویز رکھی ہے جس پر 21 جنوری کو سبھی کسان لیڈران میٹنگ کر کے فیصلہ لیں گے۔ متنازعہ زرعی قوانین کی واپسی کا مطالبہ کر رہےکسانوں نے میٹنگ میں حکومت سے کہا کہ وہ قوانین میں ترمیم نہیں چاہتے، اس لیے تینوں قوانین واپس لے لیے جائیں۔ لیکن حکومت نے اس سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ عارضی طور پر ایک ڈیڑھ سال کے لیے قوانین پر روک لگا سکتے ہیں تاکہ کمیٹی اچھی طرح جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کر سکے۔ ذرائع کے مطابق اس تجویز کو کچھ کسان لیڈروں نے مسترد کر دیا، جب کہ کچھ لیڈروں نے کہا کہ اس پر سبھی کسان یونین آپس میں میٹنگ کر کے فیصلہ لیں گے۔ بعد ازاں آئندہ 22 جنوری کو اگلی میٹنگ طے کی گئی۔

کسان لیڈر درشن پال نے میٹنگ میں ہوئی بات چیت کی تفصیل پیش کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ’’میٹنگ میں تینوں قوانین اور ایم ایس پی پر حکومت کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ حکومت نے کہا کہ ہم تینوں قوانین کا کا ایفی ڈیوٹ بنا کر سپریم کورٹ کو دیں گے اور ہم ایک ڈیڑھ سال کے لیے اس پر روک لگا دیں گے۔ ایک کمیٹی بنے گی جو تینوں قوانین اور ایم ایس پی کا مستقبل طے کرے گی۔ ہم نے کہا کہ ہم اس پر غور کریں گے۔‘‘


کسان لیڈر حنان ملا نے بھی میٹنگ کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ ’’حکومت کی تجویز پر ہم غور کریں گے اور اس کے بعد مرکزی وزراء کو جواب دیں گے۔‘‘ کسان لیڈر شیو کمار ککّا جی نے بھی کسان یونینوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کے بعد ہی کوئی جواب دینے کی بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ (حکومت کی نئی تجویز) غور کرنے والی بات ہے۔ ہم نے کمیٹی کو منع کیا ہے کیونکہ اس پر بھروسہ نہیں ہے۔ اب درمیان کا جو راستہ نکلا ہے، کل ہم اس پر بات چیت کریں گے۔‘‘

میٹنگ کے بعد مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کا بیان بھی میڈیا میں سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’آج ہماری کوشش تھی کہ کوئی فیصلہ ہو جائے۔ کسان یونین قانون واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے اور حکومت کھلے من سے قانون کے ضابطوں کے مطابق غور کرنے اور ترمیم کرنے کے لیے تیار تھی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے کچھ وقت کے لیے زرعی اصلاح قوانین کو ملتوی کیا ہے۔ حکومت ایک سے ڈیڑھ سال تک بھی قانون کے عمل پر روک لگانے کے لیے تیار ہے۔ اس دوران کسان یونین اور حکومت بات کریں اور حل تلاش کریں۔‘‘ ایک دیگر بیان میں نریندر تومر نے کہا ہے کہ ’’جس دن کسانوں کی تحریک ختم ہوگی، وہ ہندوستانی جمہوریت کی جیت کا دن ہوگا۔‘‘


اس بیان سے ظاہر ہے کہ مرکزی وزیر زراعت کسان تحریک کو جلد ختم کرنے کو لے کر پرامید ہیں، لیکن اس کے لیے پہلے تو 21 جنوری کو ہونے والی کسان یونین کی میٹنگ کا انتظار کرنا ہوگا کہ وہ حکومت کی تجویز ماننے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ اور پھر اس کے بعد 22 جنوری کو کسان لیڈروں کے ساتھ مودی حکومت کے نمائندوں کی ہونے والی میٹنگ پر بھی سب کی نظر رہے گی۔

اس درمیان کانگریس ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا ایک ٹوئٹ آیا ہے جس میں انھوں نے مرکز کی مودی حکومت کو ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرنے کی جگہ فوری طور پر تینوں زرعی قوانین کو رد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’مودی جی، آپ اور آپ کے وزیر ورغلائیں مت۔ تینوں سیاہ قوانین کو ڈیڑھ سال کے لیے ملتوی کرنے سے کیا ہوگا؟ ساری خامیاں جوں کی توں رہ جائیں گی۔ آپ ان تینوں قوانین کو ختم کیوں نہیں کرتے؟ یہ کیسی انا ہے؟‘‘ ساتھ ہی رندیپ سرجے والا نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’جدوجہد کر رہے سبھی اَن داتاؤں کے جذبے کو سلام۔ جیتے گا کسان۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔