کشمیر ایکسکلوزیو: پریس کی آزادی پوری طرح ختم، عدلیہ بھی نہیں آزاد

کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد کے حالات پر وہاں کا جائزہ لینے گئی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں پریس کی آزادی پوری طرح ختم ہو چکی ہے اور اب عدلیہ بھی آزاد نہیں رہی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ماجد مقبول

کشمیر میں پریس کی آزادی پوری طرح ختم ہو چکی ہے، ساتھ ہی عدلیہ کا کردار بھی کٹہرے میں ہے۔ اس بات کا انکشاف اس رپورٹ سے ہوا ہے جو 11 رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے کشمیر دورہ کے بعد تیار کی ہے۔ اس ٹیم میں وکیل، ٹریڈ یونین لیڈر، حقوق انسانی کارکنان کے علاوہ دہلی، بنگلورو اور ممبئی کے محققین شامل تھے۔ ٹیم نے کشمیر سے 5 اگست کو دفعہ 370 ختم کیے جانے کے تقریباً دو مہینے بعد 28 ستمبر سے 4 اکتوبر تک جموں و کشمیر کا دورہ کیا۔

کشمیر ایکسکلوزیو: پریس کی آزادی پوری طرح ختم، عدلیہ بھی نہیں آزاد

’امپریزنڈ ریسسٹنس: 5 اگست اینڈ اِٹس آفٹر ماتھ‘ کے نام سے تیار اس رپورٹ کو جمعرات کے روز دہلی میں پریس کلب آف انڈیا میں جاری کیا گیا۔ اس ٹیم میں بنگلورو کی وکیل آتی منڈکر، دہلی کے ماہر نفسیات امت سین، آل انڈیا پیپلز فورم بنگلورو کے وکیل کلفٹن ڈی روزیریو، نیو ٹریڈ یونین انیشیٹو کی لارا جیسانی وغیرہ شامل تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بہت سے اخبارات نے اپنے رپورٹروں کو نکال دیا ہے کیونکہ ان کے پاس رپورٹروں کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ زیادہ تر پرنٹ میڈیا صرف پین ڈرائیو جرنلزم بن چکا ہے کیونکہ ان اخبارات کی خبروں کا اہم ذریعہ حکومت کے محکمہ اطلاعات کے ذریعہ پین ڈرائیو میں دی گئی جانکاری بن گیا ہے۔‘‘


رپورٹ میں لگاتار نگرانی اور پولسنگ کی بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سری نگر کے میڈیا سنٹر پر لگاتار نظر رکھی جاتی ہے۔ صرف اسی سنٹر میں صحافیوں کو انٹرنٹ خدمات دستیاب ہیں۔ سری نگر پریس کلب خوف اور دھمکی پھیلانے کی جگہ بن گیا ہے، کیونکہ یہاں صحافی آزادی سے اپنا کام نہیں کر سکتے۔

اس رپورٹ کے مطابق ’’کشمیر کے حالات نے پریس کی آزادی پوری طرح ختم کر دی ہے۔ دوسری طرف جن لوگوں سے ہم ملے انھوں نے ایک آواز میں اپنے غصے کا اظہار کیا اور اصل دھارے کی میڈیا کے ذریعہ دھوکہ دئیے جانے کی بات کی۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی میڈیا کی اس خاموشی پر بھی غصہ ظاہر کیا جو سچائی جانتے ہوئے بھی اس نے چادر اوڑھے رکھی۔‘‘


اس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں وادی کی عدلیہ پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں، خصوصاً 5 اگست کے بعد گرفتار کیے گئے لوگوں سے متعلق۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’حالانکہ سری نگر اور دوسرے ضلعوں میں عدالتیں کھلی ہیں، لیکن ان سے انصاف کی امید باقی نہیں رہی ہے۔‘‘ اس ٹیم کو ایک وکیل نے بتایا کہ کشمیر میں انارکی کا ماحول ہے اور عدلیہ مفلوج ہو چکی ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ’’پی ایس اے کا غلط استعمال کیا گیا اور اس دوران پتھر پھینکنے کے ہزاروں معاملے سامنے آئے ہیں۔ یہ لوگ کسی کو بھی اپنی مرضی کے مطابق گرفتار کر لیتے ہیں۔ مسلح افواج کی طرف سے تشدد ہو رہا ہے اور ڈپٹی کمشنر پی ایس اے کے کیسوں میں صرف ربر اسٹامپ کی طرح کام کر رہے ہیں۔‘‘

ٹیم سے بات چیت میں وکیل نے کہا کہ ’’کتنے سارے کمیشن بنائے گئے، لیکن کچھ نہیں بدلا۔ سخت قانون بدلے جانے چاہئیں۔ قومی میڈیا نے کشمیر کی شبیہ خراب کی ہے اور اسی وجہ سے ہمارے بچوں کو باہر استحصال کا شکار بنایا جاتا ہے۔‘‘ ایک اور وکیل نے دورہ پر گئی ٹیم کو بتایا کہ عام حالات میں بھی یہاں کے جج آزاد اور غیر جانبدار ہو کر کام نہیں کر سکتے کیونکہ ان پر ایجنسیوں کا دباؤ ہوتا ہے۔ اس وکیل نے بتایا کہ ’’بہت سے وکیلوں کے فون ٹیپ ہوتے ہیں۔ سبھی اداروں میں خفیہ بیورو کے لوگ موجود ہیں۔ 5 اگست کے بعد سے تو حالات غیر معمولی ہو گئے ہیں۔‘‘


رپورٹ میں جموں و کشمیر پیپلز سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو ختم کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی مسلح افواج خصوصی اختیار ایکٹ کو بھی ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Nov 2019, 11:10 AM