مودی کی مقبولیت میں گراوٹ، کیا عام انتخابات جلد ہوں گے؟

تمام سروے میں وزیر اعظم کی مقبولیت 2014 کے عام انتخابات کے مقابلہ کم ہوئی ہے جس کی وجہ سے سیٹیں بھی کم ہو تی نظر آ رہی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

گزشتہ تین سال سے ٹی وی پر کوئی شخص سب سے زیادہ نظر آتا ہے تو وہ ہیں ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور اس کی بڑی وجہ ملک میں مستقل کہیں نہ کہیں انتخابات کا ہونا اور وزیر اعظم اپنے علاوہ نہ تو کسی پر یقین رکھتے ہیں اور نہ چاہتے ہیں کہ کوئی اور عوام کا قائد نظر آئے۔اس لئے سب جگہ بس وہی نظر آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے تمام رہنما بونے ہو گئے ہیں۔ گزشتہ دس روز سے ایک بڑی تبدیلی سامنے آئی ہے۔ وزیر اعظم جو میڈیا سے زیادہ بات کرنے میں یقین نہیں رکھتے انہوں نے دو ٹی وی چینلوں کو انٹر ویو دئے اور اس کے بعد سے تین ٹی وی چینلوں نے عوام کا موڈ جاننے کے لئے سروے پیش کئے ۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ اس کو لے کر سوال کئے جانے لگے۔ بات یہاں تک ہونے لگی کہ کیا وزیر اعظم ایک سال پہلے عام انتخابات کرا سکتے ہیں۔ پہلے تواس بات کو سن کر بھی عجیب سا لگا لیکن اب ایسا لگنے لگا ہے کہ کہیں ایسا ہوگا تو نہیں؟

جتنے بھی سروے آئے ہیں اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ حکومت اور بی جے پی کا چہرا وزیر اعظم کی عوام میں مقبولیت کم ہو رہی ہے اور مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے نیچے آ رہا ہے۔ دوسری جانب کانگریس مکت ہندوستان کا نعرہ بھی ایک جملہ ثابت ہورہا ہے اور اس کی تصدیق خود وزیر اعظم نے اپنے انٹرویو کے دوران اس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اس وقت کہی جب انہوں نے تسلیم کیا کہ کانگریس ملک کی سیاست کا اہم ستون ہے۔ کانگریس اورپارٹی کے نئے صدر راہل گاندھی کی مقبولیت میں صرف اضافہ ہی نہیں ہو رہا بلکہ بہت کم وقت میں ان کو متبادل کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو نریندر مودی کو یہ سوچنے پر مجبور کر سکتی ہیں کہ ایک سال پہلے عام انتخابات کرا لئے جائیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی حکومت کے خلاف ناراضگی کا ماحول بننا شروع ہو جاتا ہے اور اس کی مقبولیت کا گرا ف نیچے آنا شروع ہو جاتا ہے تو اس کو روکنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور وہ پھر بہت تیزی کے ساتھ مزید نیچے آتا ہے ۔ اس لئے مودی اس بات کو سمجھتے ہوئے خوفزدہ ہیں کہ کہیں ایک سال میں یہ گراف اور نیچے نہ آ جائے اور دوبارہ مرکز میں حکومت بنانے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو پائے۔

تمام سرووں میں وزیر اعظم کی مقبولیت 2014 کے عام انتخابات کے مقابلہ کم ہوئی ہے جس کی وجہ سے سیٹیں بھی کم ہو تی نظر آ رہی ہیں۔ ادھر راہل گاندھی کی مقبولیت میں زبر دست اضافہ ہوا ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور گجرات انتخابات کے نتائج نے بی جے پی کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور پارٹی کو اس بات کا احساس ہے کہ عوام کی ناراضگی روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس کو روکنے کے لئے ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ ان سرووں نے ایک بات اور واضح کر دی ہے کہ آئندہ انتخابات میں بی جے پی کو اپنے بل بوتےاکثریت ملتی نظرنہیں آرہی ہے اور اگر وہ حکومت میں آتی بھی ہے تو وہ این ڈی اے کی حیثیت سے ہی آ پائے گی جس میں اتحادی پارٹیوں کا کردار بڑھ جائے گا جو مودی جیسے قائد کے لئے بہت بڑا مسئلہ ہو گا کیونکہ وہ کلی اقتدار میں یقین رکھتے ہیں۔ اگر حکومت نے انتخابات ایک سال پہلے کرانے کا فیصلہ کر لیا تو یہ بھی حکومت اور نریندر مودی کے خلاف جائے گا اور جیسے جولائی 2017 سے اب تک بی جے پی اور مودی کی مقبولیت میں واضح کمی آئی ہے اس میں مزید کمی آئے گی اور ممکن ہے کہ اگر بی جے پی حکومت بنا پائی تو اس کو حکومت بنانے میں بہت سمجھوتے کرنے پڑیں ۔

چلئے سرووں کے کچھ اہم پہلؤوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

اے بی پی نیوز کا سی ایس ڈی ایس-لوک نیتی کے اشتراک سے کیا گیا سروے

• نریندر مودی حکومت سے ناخوش افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، الیکشن ہوئے تو یو پی اے کی سیٹیں دوگنی ہو جائیں گی۔

• قبل ازیں مئی 2017 میں ہوئے سروے میں غیر مطمئن افراد 27 فیصد تھے جو اب 13 فیصد بڑھ کر 40 فیصد ہو گئے ہیں۔

• سروے میں 19 ریاستوں کی 175 سیٹوں سے اعداد وشمار اکٹھا کئے گئے ہیں اور یہ سروے 7 سے 20 جنوری کے بیچ کیا گیا ہے۔

• مشرقی ہندوستان (بہار، بنگال، جھارکھنڈ، اوڈیشااور آسام) میں اگر آج چناؤ ہوئے تو کل 142 سیٹوں میں سے بی جے پی اور ان کی اتحادی جماعتوں (این ڈی اے )کو 72، کانگریس اور ان کے اتحادیوں (یو پی اے )کو 18اور دیگر کو 52 سیٹیں مل سکتی ہیں۔

• ماہرین کے مطابق بہار میں نتیش کمار کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کر لینے کی وجہ سے این ڈی اے کی سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔

• جنوبی ہندوستان (کرناٹک، آندھر اپردیش، تلنگانہ، تمل ناڈو اور کیرالہ) میں این ڈی اے کی حالات کمزور ہے جبکہ یو پی اے کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ وہاں کل 132 سیٹوں پر این ڈی اے کو 34، یو پی اے کو 63 اور دیگر کو 35 سیٹیں ملنے کے امکانات ظاہر کئے گئے ہیں۔

• 2017 کے سروے کے مطابق این ڈی اے کو 39 ، یو پی اے کو 52 اور دیگرکو 41 سیٹیں ملنے کاامکان ظاہر کیا گیا تھا۔ یعنی این ڈی اے کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور اسے 5 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ کانگریس کی قیادت والے یو پی اے کو 11 سیٹیں زیادہ ملتی نظر آ رہی ہیں۔ دیگر کو بھی 6 سیٹوں کا نقصان ہو رہا ہے۔

• اس سال ہونے جا رہے کرناٹک چناؤ میں بی جے پی کو اقتدار میں واپسی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ سکتا ہے۔

• سروے کے مطابق شمالی ہندوستان (اتر پردیش، راجستھان، دہلی ، پنجاب اور ہریانہ) کی کل 151 لوک سبھا سیٹوں پر اگر آج انتخابات ہو جائین تو این ڈی اے کو 2014 کے مقابلہ 20 سیٹوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ سروے کے مطابق این ڈی اے کو 111 سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ 2014 میں اسے 131 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ شمالی ہندوستان میں یو پی اے کو 13 سیٹیں پر اور دیگرکو 27 سیٹیں ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

آج تک کا کروی انسائٹس کے اشترا ک سے کیا گیا سروے

• آج تک کے سروے میں 19 ریاستوں کے 97 پارلیمانی اور 194 اسمبلی حلقہ انتخاب کے 14148 لوگوں کو شامل کیا گیا۔

• بہترین وزارئے اعلیٰ کے معاملہ میں بی جے پی حکومتوں کا کوئی بھی وزیر اعلیٰ سرفہرست تین مقاموں پر نہیں ہے۔ چوتھے مقام پر یوگی آدتیہ ناتھ ہیں جبکہ 29 میں سے 19 ریاستوں میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت بر سر اقتدار ہے۔

• 12 فیصد ووٹوں کے ساتھ ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کا مقام اول ہے جبکہ 11 فیصد کے ساتھ نتیش کمار کا مقام دوسرا ہے ۔ اروند کجریوال 9 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے مقام پر ہیں۔

• اگر تمام حزب اختلاف (کانگریس، ٹی ایم سی، بی ایس پی اور ایس پی ) متحد ہو جائیں تو یو پی اے کے کھاتے میں 38 فیصد ووٹ آسکتے ہیں ۔ اس کے بعد این ڈی اے اور یو پی اے کے ووٹوں میں محض دوفیصد کا فرق رہ جائے گا۔

• تمام حزب اختلاف کے متحد ہونے کے بعد یو پی اے کے حصہ میں 202 سیٹیں آ سکتی ہیں جبکہ این ڈی اے کے حصہ میں محض 258 سیٹیں ہی آ پائیں گی جبکہ دیگرکو 83 سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔

• آج الیکشن ہوئے تو این ڈی اے کو 40 فیصد، یو پی اے کو 27 فیصد اور دیگرکو 33 فیصد ووٹ ملیں گے۔

• اب سے پہلے کئے گئے سروے میں این ڈی اے کو 42 فیصد ووٹ ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ اس طرح این ڈی اے کے ووٹ فیصد میں 2 فیصد کی گراوٹ آ گئی ہے۔

• ابھی چناؤ ہوئے تو این ڈی اے کو 309 سیٹیں، یو پی اے کو 102 اور دیگرکو 132 سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ پچھلے سروے میں این ڈی اے کو 349 اور یو پی اے کو 75 سیٹیں ملنے کا امکان تھا ۔

• بے روزگاری کو لوگ سب سے بڑا مدہ مانتے ہیں۔ 29 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سب سے بڑا چیلنج ہے جبکہ 23 فیصد لوگ مہنگائی کو سب سے بڑا مدہ تصور کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں 17 فیصد افراد بد عنوانی کو سب سے بڑا مسئلہ تصور کر رہے ہیں۔

• گجرات انتخابات کے بعد راہل گاندھی کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران نریندر مودی کی مقبولیت کا فرق 24 فیصد کم ہوا ہے۔

• مہنگائی، کسانوں کی خودکشی اور سرحدی دہشت گردی پر لوگوں نے اپنی رائے پیش کی۔ 23 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے معاملہ میں حکومت ناکام رہی ۔ 15 فیصد کا ماننا ہے کہ کسانوں کی خود کشی روکنے میں مودی حکومت ناکام رہی جبکہ 22 فیصد کا کہنا ہے کہ بے روزگاری سے نمٹنے میں بھی مودی حکومت ناکام ہو گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Jan 2018, 12:04 PM