بابری مسجد پر فیصلہ افسوس ناک مگر نظر ثانی عرضی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا: جمعیۃ

جمعیۃ علماء ہند (م) نے کہا کہ مسجد کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا، اس لیے بابری مسجد کے بدلہ میں ایودھیا میں پانچ ایکڑ زمین قبول نہیں کرنی چاہیے۔

تصویر پریس ریلیز
تصویر پریس ریلیز
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: بابری مسجد قضیہ پر آئے فیصلے اور اس کے عواقب پر غور و خوض کے لیے جمعیۃ علماء ہند (م) کی قومی مجلس عاملہ کا اجلاس اختتام پزیر ہو گیا جس میں یہ ایک اہم تجویز منظور کرتے ہوئے شرکا نے کہا کہ بابری مسجد پر فیصلہ آزاد ہندوستان کا سیاہ باب ہے اور مسلمانوں کو اس سے مایوسی ہوئی ہے تاہم اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی عرضی داخل کرنا سود مند نہیں ہے کیونکہ ججوں سے آئندہ کسی خیر کی توقع نہیں ہے بلکہ مزید نقصان کا اندیشہ ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے جاری ایک پریس بیان میں یہ معلومات دی گئی۔

پریس بیان کے مطابق، مجلس عاملہ کا اجلاس صدر جمعیۃ علماء ہند (م) مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری کے زیر صدارت بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی میں واقع صدر دفتر میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے دوران سپریم کورٹ کے حالیہ بابری مسجد فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن داخل کی جائے یا نہ کی جائے اور پانچ ایکڑ زمین قبول کی جائے یا نہ کی جائے، اس پر بھی غور و خوض کیا گیا۔


مجلس عاملہ میں شامل ملک بھر سے آنے والے علماء، وکلاء اور قائدین نے بحث کے بعد ایک ٹھوس تجویز منظور کی، اجلاس میں اس کے علاوہ اوقاف کے تحفظ اور آ ثار قدیمہ کی مساجد میں نماز کی اجازت دیئے جانے سے متعلق بھی تجویز منظور ہوئی۔


مجلس عاملہ اجلاس کے دوران جو تجویز منظور کی گئی اس کے مطابق، بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو سراسر یکطرفہ اور غیر منصفانہ قرار دیا گیا۔ اس فیصلے نے یہ ثابت کردیا کہ مندر توڑ کرمسجد نہیں بنائی گئی بلکہ سیکڑوں سالوں سے قائم مسجد کو شہید کرکے اب عدالت کے ذریعہ وہاں مندر تعمیر کرنے کا راستہ ہموار کر دیا گیا ہے جو آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔

ایسی صورت حال میں مذکورہ ججوں سے آئندہ کسی خیر کی توقع نہیں ہے بلکہ مزید نقصان کا اندیشہ ہے، اس لیے مجلس عاملہ اس فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کو مفید تصور نہیں کرتی۔ لیکن چوں کہ متعدد تنظیموں نے اپنے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے نظر ثانی کی عرضی دائر کر نے کی رائے قائم کر لی ہے، اس لیے جمعیۃ علماء ہند اس کی مخالفت نہیں کرے گی اور امید رکھے گی کہ خدا نخواستہ اس اقدام کا کوئی منفی پہلو ظاہر نہ ہو۔ نیز جمعیۃ علماء ہند یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ مسجد کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا، اس لیے بابری مسجد کے بدلہ میں ایودھیا میں پانچ ایکڑ زمین قبول نہیں کرنی چاہیے۔


اسی کے ساتھ مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند بابری مسجد مقدمہ کی پیروی کرنے والی سبھی تنظیموں اور وکلاء کی خدمات کی قدر کرتے ہوئے ان کی ستائش کرتی ہے۔ اس موقع پر مسلمانوں نے جس صبر وتحمل اور پرامن شہری ہونے کا ثبوت دیا وہ انتہائی قابل قدر ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ مسلمان آئندہ بھی مایوس ہونے کے بجائے ہمت و حوصلہ سے کام لیں گے اور نمازوں کی پابندی اور مسجدوں کو آباد رکھنے کا پورا اہتمام کریں گے۔

اوقاف کے تحفظ سے متعلق تجویز

اوقاف کے تحفظ سے متعلق اجلاس مجلس عاملہ میں غور و خوض ہوا اور اراکین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ صوبائی ومرکزی حکومتوں کی بے جا مداخلت کی بناء پر اوقاف کے ذمہ داران ایسے فیصلے کرتے ہیں جو قوم وملت کے لیے مضر اور نقصان دہ ہوتے ہیں، بابری مسجد سے متعلق قضیہ میں یوپی سنی وقف بورڈ کے چیئرمین نے ملت کے ساتھ خیانت کرتے ہوئے میر جعفر کا کردار ادا کیا ہے۔


مجلس عاملہ میں ایک کمیٹی تشکیل دینا طے کیا گیا جس کے ارکان شکیل احمد سید ایڈوکیٹ، مولانا نیاز احمد فاروقی، حافظ پیر شبیر احمد اور حاجی محمد ہارون ہوں گے جبکہ کمیٹی کے کنوینر حافظ ندیم صدیقی صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹرا بنائے گئے ہیں۔

آثار قدیمہ کی مساجد کے بارے میں تجویز

جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ملک کی جو غیر متنازعہ مساجد محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہیں اور ان میں نماز نہیں ہو رہی ہے، انھیں جلد ازجلد نمازیوں کے لیے کھولا جائے تاکہ وہاں خدا کی عبادت کی جا سکے اور وہ آباد رہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Nov 2019, 7:11 PM