دلت مسلم اور دلت کرسچن کو بھی درج فہرست ذات کا درجہ دیا جائے، مولانا محمود مدنی نے سپریم کورٹ میں داخل کی عرضی

جمعیۃ علماء ہند نے منگل کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے کہ دلت مسلم یا دلت عیسائی کو بھی درج فہرست ذات کا درجہ دیا جائے تاکہ وہ سرکاری ملازمتوں اور تعلیم گاہوں میں ریزرویشن کا فائدہ اٹھا سکیں

مولانا محمود مدنی کی فائل تصویر، بشکریہ ویکیپیڈیا
مولانا محمود مدنی کی فائل تصویر، بشکریہ ویکیپیڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند نے منگل کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے کہ دلت مسلم یا دلت عیسائی کو بھی درج فہرست ذات کا درجہ دیا جائے تاکہ وہ سرکاری ملازمتوں اور تعلیم گاہوں میں ریزرویشن کا فائدہ اٹھا سکیں، اس سلسلے میںجمعیۃ نے دفعہ341 میں مذہب کی بنیاد پر کی گئی تفریق کو ختم کرنے کی درخواست کی ہے اور اسے آئین ہند کی روح کے خلاف بتایا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کی طرف سے داخل کردہ عرضی میں سچر کمیٹی ، رنگاناتھ مشرا کمیشن اور قومی اقلیتی کمیشن 2008 کی رپورٹ کو بطورثبوت پیش کیا گیا ہے ۔عرضی میں اس حقیقت کو بھی واضح طور سے بیان کیا گیا ہے کہ اسلام بحیثیت مذہب تمام انسانوں کے درمیان مساوات کی تعلیم دیتا ہے جو کہ اسلامی عقیدہ و فکر کا ایک غیر منقطع اصول اور بنیادی حصہ ہے۔


اسلامی فلسفہ حیات میں ذات پات کے نظام کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے لیکن اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ہندستان کے مسلمانوں پر ہندو معاشرے کا اثر ہے ،اس لیے مسلم سماج میں بھی ذات پات اور اس پر مرتب ہونے والے سماجی اثرات پائے جاتے ہیں۔خود سپریم کورٹ نے اندرا ساہنی کیس بنام یونین آف انڈیا میں ہندستانی مسلمان کے درمیا ن ذات پات کے نظام کو تسلیم کیا ہے ،سچر کمیٹی نے بھی 2006 کی رپورٹ میں اشراف، اجلاف اور ارزال کے درمیان مسلمانوں کی تقسیم کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ 2008 میں نیشنل کمیشن فار مائناریٹیزنے دلت مسلم اور دلت کرسچن پر رپورٹ تیارکی تھی ، جس میں یہ لکھا ہے کہ اربن انڈیا میں دلت مسلم کی 47 فیصد فی صد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارتی ہے، جو کہ ہندو دلت اور کرسچن دلت سے کہیں زیادہ ہے۔

ان حالات میں تفریق کی یہ شکل غیر معقول ہے اور آئین کی دفعہ 14، 15 کے خلاف ہے، یہ دلیل بھی غیر معقول ہے کہ جس سماجی بنیاد پر ان کو ریزرویشن دیا جاتا ہے ، وہ اسلام یا عیسائیت اختیار کرنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ اسلام یا عیسائیت اختیار کرنے کے باوجود بھی ہندستان کے موجودہ سماجی پس منظر میں مطلوبہ تبدیلی نہیں ہوپاتی ، اس سلسلے میں رنگاناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات چشم کشا ہیں ۔جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے یہ عرضی ایڈوکیٹ ایم آرشمشاد نے داخل کی اور عدالت عظمی سے درخواست کی ہے کہ وہ درخواست گزار کو 2004 کی سول رٹ پٹیشن نمبر 180 میں مداخلت کرنے کی اجازت دیں اور مناسب اور درست فیصلہ فرما کر انصاف کی راہ ہموار کریں۔


اس عرضی کے سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر و عرضی گزار مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ کی طرف سے یہ عرضی بروقت دی گئی ہے، ہماری جماعت کافی عرصے سے سرکاروں سے یہ مطالبہ کرتی رہی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنے والا یہ قانون ختم کیا جائے اور کسی کو اس کے حق سے محروم نہ کیا جائے۔ امید ہے کہ عدالت عظمی ہماری عرضی پر غور کرے گی اور اسے قبول کرتے ہوئے حکومت ہند کو سیکولر اورمنصفانہ کردار ادا کرنے پر مجبور کرے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔