گئورکشکوں کے کرتوت نے تباہ کر دیا راجستھان کا مویشی کاروبار

گزشتہ سالوں کے دوران گئو اسمگلنگ کے الزام میں مبینہ گئو رکشکوں کے ہجوم نے کئی لوگوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا، جس سے لوگ گائیوں کو کہیں لانے لے جانے سے خوف کھانے لگے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

ملک کے مختلف حصوں میں پیش آئے موب لنچنگ کے واقعات کے بعد راجستھان میں گائے کے کاروبار میں بھاری گراوٹ نظر آ رہی ہے۔ دراصل گزشتہ سالوں کے دوران گئو اسمگلنگ کے الزام میں مبینہ گئو رکشکوں کے ہجوم نے کئی لوگوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا۔ جس کے بعد سے لوگ گائیوں کو کہیں لانے لے جانے سے خوف کھانے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مویشی کاروبار میں گزشتہ کچھ سالوں سے گراوٹ آئی ہے۔

راجستھان میں مویشیوں کی خرید و فروخت کے لئے مشہور اور ملک کے دوسرے سب سے بڑے مویشی بازار تلواڑہ میں گزشتہ چھ سالوں کے دوران مویشیوں کی فروخت میں 95 فیصد کی بھاری کمی آئی ہے۔ انڈیا اسپینڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق، سال 2011 میں اس بازار میں جہاں 7430 گائوں کی بکری ہوئی تھی اور تقریباً 1.35 کروڑ روپے کا کاروبار ہوا وہیں سال 2017 میں اس بازار میں محض 342 مویشیوں کی ہی فروخت ہو سکتی اور کاروبار گھٹ کر 7.3 لاکھ روپے ہی رہ گیا۔


اس کے علاوہ راجستھان میں گائیوں کی روایتی نسل تھرپرکار کے مستقبل پر بھی خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ راجستھان کے سرحدی علاقہ باڑمیر اور جودھپور کے دیہی علاقوں میں 95 فیصد مسلم طبقہ کے لوگوں نے خوف کی وجہ سے گائے کا کاروبار کرنا بند کر دیا ہے۔ مئی 2014 سے لے کر مارچ 2018 کے درمیان گائے کے نام پر 9 ریاستوں میں 48 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ اکیلے راجستھان میں ہی موب لنچنگ کے 10 واقعات رو نما ہو چکے ہیں۔ سال 2010 سے اب تک کے اعداد و شمار کی بات کریں تو ملک کی 22 ریاستوں میں گائے سے متعلق 10 واقعات منظر عام پر آئے۔ سال 2010 سے اب تک کے اعداد کی بات کریں تو ملک کی 22 ریاستوں میں گائے کے نام پر تشدد کے 127 واقعات منظر عام پر آئے ہیں ۔ انڈیا اسپینڈ کی رپورٹ کے مطابق ان وقعات میں سے 98 فیصد سال 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد درج کئے گئے ہیں۔

اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں گئو رکشا قانون نافذ ہو گیا ہے۔ جس کے سبب ان ریاستوں میں کسان اب بوڑھی ہو چکی گائیوں کو فروخت نہیں کر پا رہے ہیں اور انہیں آوارہ چھوڑ دے رہے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ یہ آوارہ مویشی فصلوں کو بری طرح برباد کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں 2727 رجسٹرڈ گئو شالائیں ہیں لیکن ان میں بھی چارے اور جگہ کی کمی ہے۔ اسی سال فروری ماہ میں جے پور میں ہنگونیا گئو شالا میں تقریباً 500 گائیوں کی بھوک سے موت کی خبر منظر عام پر آئی تھی۔


اگست 2018 میں انڈین ایکسپریس میں شائع ایک خبر کے مطابق گزشتہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ریلوے ٹریک پر حادثے میں مرنے والی گائوں کی تعداد میں 112 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، سال 2015-16 میں جہاں 2183 گائیں ماری گئی تھیں وہیں 2017-18میں یہ تعداد 362 فیصد بڑھ کر 10 ہزار سے زیادہ ہوگئی ۔

خاص بات یہ ہے کہ ٹرین ایکسیڈنٹ میں گائیوں کی موت کے سب سے زیادہ واقعات بی جے پی کی حکمرانی والے ہندی بلٹ والے صوبوں میں پیش آئے۔ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کا دعوی ہے کہ سال 2013 سے لے کر 2018 تک ملک میں 70 ہزار گائیوں کی موت ہوئی ہے۔ تھار جاگروک ناگرک منچ کے کنوینر بونیش جین نے کہا کہ یہاں کا مسلم طبقہ گائے کا گوشت نہیں کھاتا لیکن ہندو انتہا پسندوں کی کارروائی کی وجہ سے گزشتہ 5 سالوں میں ان علاقوں کی سماجی و اقتصادی ساخت میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ مسلم طبقہ کے لوگ مویشی کاروبار کو چھوٹ کر کسی دوسرے ذریعہ معاش کا رُخ کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 May 2019, 9:10 PM