آر جی کر عصمت دری و قتل کیس میں عدالت نے سنائی سنجے رائے کو تاحیات قید کی سزا
جج نے 18 جنوری کو ہی واضح کر دیا تھا کہ اس معاملے میں زیادہ سے زیادہ سزا ’پھانسی‘ ہو سکتی ہے، اور کم از کم سزا ’تاحیات قید‘ کی سنائی جا سکتی ہے۔

عدالتی فیصلہ / آئی اے این ایس
مغربی بنگال کے سیالدہ کورٹ نے آج آر جی کر میڈیکل کالج کی زیر تربیت خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری و قتل معاملے میں سزا کا اعلان کر دیا۔ عدالت نے اس عصمت دری و قتل معاملہ میں قصوروار قرار دیے گئے سنجے رائے کو تاحیات قید کی سزا سنائی ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے سنجے پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ متاثرہ زیر تربیت ڈاکٹر کے والد نے سنجے رائے کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا، لیکن عدالت نے اس معاملہ میں دی جانے والی کم از کم سزا یعنی تاحیات قید کی سزا سنائی۔
آج فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ یہ کوئی معاملہ جرم نہیں ہے، لیکن اس نے اسے ’ریئریسٹ آف دی ریئر‘ نہیں کہا۔ اس دوران عدالت نے مغربی بنگال حکومت کو حکم دیا کہ وہ مہلوکہ کی فیملی کو 17 لاکھ روپے کا معاوضہ دے۔ جب عدالت نے سنجے رائے کو تاحیات قید کی سزا سنائی تو وہ جج کے سامنے بار بار یہی کہتا دکھائی دیا کہ ’’میں قصوروار نہیں ہوں۔ مجھے پھنسایا جا رہا ہے۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔‘‘
سزا کے اعلان سے پہلے بھی سنجے رائے لگاتار خود کو بے قصور بتا رہا تھا۔ آج عدالت میں جب سنجے کو پیش کیا گیا تو جج نے اس سے کہا کہ تم قصوروار ہو، کیا سزا پر تمھیں کچھ کہنا ہے؟ جواب میں سنجے رائے نے کہا کہ میں قصوروار نہیں ہوں۔ مجھے پھنسیا گیا ہے۔ بہت کچھ برباد ہو گیا ہے۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ مجھ پر جرم قبول کرنے کا دباؤ بنایا جا رہا ہے۔ میں نے رودراکش کی مالا پہنی ہوئی تھی، اگر میں ایسا کرتا تو میری رودراکش کی مالا ٹوٹ جاتی۔ سنجے رائے نے یہ بھی کہا کہ اسے اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے جو اس نے کیا ہی نہیں۔
واضح رہے کہ جج نے 18 جنوری کو جب سنجے رائے کو آر جی کر عصمت دری و قتل معاملہ میں قصوروار قرار دیا تھا، تو اس وقت ہی واضح کر دیا تھا کہ اس معاملہ میں زیادہ سے زیادہ سزا ’موت‘ اور کم از کم سزا تاحیات قید ہو سکتی ہے۔ عصمت دری و قتل کے جرم میں سنجے رائے کے خلاف سزا سنائے جانے کا عمل آج مکمل ہو گیا، لیکن ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ سے متعلق سی بی آئی کی جانچ چلتی رہے گی۔
اس معاملے میں سماعت کے دوران سی بی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہم نے ثبوت پیش کیے ہیں۔ ہم نے قانون کے حساب سے کام کیا ہے۔ سی بی آئی نے بتایا کہ ’’متاثرہ 36 گھنٹے ڈیوٹی پر تھی، کام کی جگہ پر اس کے ساتھ عصمت دری ہوئی اور پھر قتل کیا گیا تھا۔ وہ ایک ہونہار طالبہ تھی۔‘‘ متاثرہ کی فیملی کی طرف سے عدالت میں پیش وکیل نے کہا کہ ’’ثبوتوں سے اس رات کے واقعہ کے بارے میں ساری باتیں صاف ہو جاتی ہیں۔ کئی بار بحث کے بعد بھی ملزم کی بے گناہی ثابت نہیں ہوئی ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔