کیسے مہنگی پڑ رہی ہے بی جے پی کو شاہین باغ کی مخالفت

پچھلے دنوں بی جے پی کے آفیشیل یو ٹیوب چینل سے شاہین باغ کے خلاف انتخابی تشہیر کے لئے ایک ویڈیو سانگ اپلوڈ کیا گیا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے ’لائک‘ کم اور ’ڈِس لائک‘ زیادہ لوگوں نے کیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سلمان غنی

دہلی اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل کرنے کے لئے بی جے پی جو بھی داؤ کھیل رہی ہے اس کا اب تک الٹا ہی نتیجہ نکل رہا ہے۔ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے گزشتہ پانچ برسوں میں عوام کے لئے جو ترقیاتی کام کیے ہیں، بی جے پی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں کی انتخابی تشہیر کی تقریر کا مرکزی موضوع شاہین باغ کا وہ احتجاج ہے جو اب اپنے تیسرے مہینے میں داخل ہونے والا ہے۔ اس احتجاج کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور اس میں شامل لوگوں کو ’اینٹی نیشنل‘ اور غدار کہنے میں بی جے پی کے لیڈر کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ بھی اپنی ہر تقریر میں’شاہیں باغ... شاہین باغ‘ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن شاہین باغ پر فرقہ وارانہ سیاست تیز کرنے کا فائدہ بی جے پی کو ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس بات کو بی جے پی بھی بخوبی سمجھ رہی ہے۔ لیکن اس کے پاس دہلی الیکشن میں اور کوئی موضوع بچا ہی نہیں ہے۔ اس لئے اس نے اپنی پوری قوت شاہین باغ کو بدنام کرکے اس پورے انتخاب کو پولرائز کرنے میں جھونک دی ہے۔


کیسے مہنگا پڑا بی جے پی کو شاہین باغ کے خلاف ’گانا‘ ریلیز کرنا؟

پچھلے دنوں بی جے پی کے آفیشل یو ٹیوب چینل سے شاہین باغ کے خلاف انتخابی تشہیر کے لئے ایک ویڈیو سانگ اپ لوڈ کیا گیا۔ اس گانے میں شاہین باغ کے احتجاجیوں کو ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ، اربن نکسل اور دیش کو توڑنے والے‘ جیسے ناموں سے پکارا گیا۔ ساتھ ہی دہلی والوں سے بی جے پی کے حق میں ووٹ دے کر دیش کو مضبوط کرنے کی اپیل کی گئی۔


لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف چار دنوں کے اندر اس ویڈیو کو 43 ہزار لوگوں نے ’ڈِس لائک‘ کر دیا جبکہ صرف 1100 لوگوں نے ہی اس پر ’لائک‘ کا بٹن دبایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس ویڈیو پر منفی تبصروں کا سیلاب امنڈ پڑا۔ لوگوں نے بی جے پی کو ہاری ہوئی پارٹی بتانا شروع کر دیا، اور اروند کیجریوال کے ترقیاتی کاموں کی پذیرائی ہونا شروع ہو گئی۔ اپوروا سنگھ اس ویڈیو پر تبصرہ کرتی ہوئی لکھتی ہیں ’’یہ ہمارے ملک ہندستان کا دہلی شہر ہے۔ ہم بی جے پی جیسی اینٹی نیشنل پارٹی نہیں چاہتے۔ بی جے پی اپنے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کو غدار کہنا چھوڑ دے۔‘‘

یو ٹیوب پر کئی تبصرے تو بہت دلچسپ ہیں۔ ایک یوزر نے مزہ لیتے ہوئے تبصرہ کیا ہے کہ ’’یوٹیوب نے یہاں ایک ہی ڈس لائک بٹن کیوں دیا؟‘‘ ویڈیو سانگ میں ایک لائن یہ بھی ہے کہ ’’دیش بدلا، اب دہلی بدلو‘‘۔ راجہ آرین اس سلسلے میں تبصرہ کرتے ہیں کہ ’’دہلی دیش سے باہر ہے کیا؟ جب ملک بدل گیا تو دہلی کیوں نہیں بدلی؟ جو بھی بی جے پی کے لئے ووٹ مانگنے آئے اسے جوتے مارو۔‘‘ یوا یگ نام کے ایک یوزر لکھتے ہیں ’’تم نے ایک ہندو بھائی کو مسلم بھائی سے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔8 فروری کو ہم تمہیں بتائیں گے۔ بٹن دبائیں گے، کرنٹ بھی لگائیں گے۔‘‘


کرنٹ لگانے کی بات وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنی ایک انتخابی تقریر میں کہی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ آپ کمل کا بٹن اتنے غصے میں دبائیں کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک محسوس ہو۔ امت شاہ کی اس تقریر کے بعد متنازع اشتعال انگیز بیانات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ بی جے پی کے سرکردہ لیڈر انوراگ ٹھاکر نے بھرے مجمع سے گولی مارنے کا نعرہ لگوایا تو ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما نے جیت جانے پر مسجدوں کو توڑ دینے کا وعدہ کر ڈالا۔

کل ملا کر بی جے پی دہلی اسمبلی انتخاب میں اب پوری طرح بوکھلائی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس نے اپنے تمام شعلہ بیان لیڈروں کو راجدھانی میں جھونک دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔