بی جے پی کا دولت کے ذریعہ جمہوریت کو یَرغمال بنانے کا کھیل... عبیداللہ ناصر

کرناٹک اور گوا میں عہدہ اور پیسے کے لالچ میں جس طرح جمہوری قدروں اور آئینی تقاضوں کو پامال کیا جا رہا ہے وہ بے حد شرمناک ہے اس کی مثال صرف یہی دی جا سکتی ہے کہ شادی کسی کے ساتھ، سہاگ رات کسی کے ساتھ۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

کرناٹک اور گوا کے سیاسی ڈرامہ نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑے کر دیئے ہیں کہ کیا ہم پارلیمانی جمہوری نظام کے لائق رہ بھی گئے ہیں یا نہیں۔ ہمارے اس نظام میں بہت سی برائیاں اور خامیاں آ گئی ہیں اور ان سب پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے اور ان کے تدارک کے طریقوں پر غور کرنا ہوگا ورنہ ہمارے پارلیمانی جمہوری نظام کا یہ ڈھانچہ چرمرا کر گر جائیگا، انجام کار آمریت ہمارا مقدر بن جائے گی۔

ہم شاید جمہوریت کی قدر اس لئے نہیں کر پا رہے ہیں کیونکہ آزادی کے بعد جمہوریت ہمارے بغیر کسی جدوجہد کے مل گئی تھی ورنہ جن ملکوں کے عوام نے جمہوریت نہیں دیکھی تھی انہوں نے جمہوریت کے حصول کے لئے کیا کیا قربانیاں دی ہیں وہ اپنے پڑوسی ملکوں سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔

کرناٹک اور گوا میں عہدہ اور پیسے کی لالچ میں جس طرح جمہوری قدروں اور آئینی تقاضوں کو پامال کیا جا رہا ہے وہ بے حد شرمناک ہے اس کی مثال صرف یہی دی جا سکتی ہے کہ شادی کسی کے ساتھ، سہاگ رات کسی کے ساتھ، جو منتخب ممبران اسمبلی یا پارلیمنٹ عہدہ اور پیسے کی لالچ میں اپنی سیاسی وفا داریاں بدلتے ہیں وہ صرف اصولوں، آدرشوں اور نظریات کا ہی سودا نہیں کرتے وہ صرف اپنی پارٹی کو ہی دھوکہ نہیں دیتے بلکہ اپنے ووٹروں کو بھی دھوکا دیتے ہیں، ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں ضرورت ایک ایسے قانون کی ہے کہ ایسے تمام قانون ساز نہ صرف اپنی رکنیت سے ہاتھ دھوئیں بلکہ اگلے 6 برسوں تک کوئی بھی سیاسی عہدہ نہ حاصل کر سکیں اور نہ ہی الیکشن لڑ سکیں۔


اگرچہ آنجہانی راجیو گاندھی نے دل بدل کی روک تھام کے لئے قانون بنایا تھا اور اس کے بعد بھی اس قانون میں ترمیم کر کے مزید سختیاں شامل کی گئیں لیکن جب آئین اور قانون کی دل سے عزت نہ ہو تو ہر قانون سے بچنے کا راستہ شاطر دماغ ڈھونڈھ ہی لیتے ہیں، بی جے پی کو تو اس میں خاص مہارت حاصل ہے وہ ان جوازوں، تقاضوں اور قانونوں سے بچنے کے وہ وہ راستے تلاش کر لیتی جنھیں سن اور دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اتر پردیش میں کلیان سنگھ کی سرکار بچانے کے لئے اتر پردیش اسمبلی کے اسپیکر کیسری ناتھ ترپاٹھی نے ہاتھ کی جو جو صفائی دکھائی اس کی کاٹ سپریم کورٹ بھی نہیں کر پایا تھا۔

اتر پردیش میں جہاں اس نے قسطوں میں دل بدل کا راستہ نکالا وہیں کرناٹک میں اس نے مخالف خیمہ کے لالچی دھوکہ باز اور خود غرض ممبران کی وفاداریاں خریدیں، مطلوب تعداد نہ ہونے اور انھیں سزا سے بچانے کے لئے ان سے استعفی دلوایا پھر انھیں وزیر بنایا اور چھ مہینہ بعد جب ان کی خالی سیٹوں پر الیکشن ہوئے تو ان کو وہیں سے ٹکٹ دے کر جتوا لیا، اگر آئین اور قانون کے صرف الفاظ کو دیکھا جائے تو یہ بالکل سہی اور آئینی طریقہ ہے لیکن اگر آئین کی روح کو دیکھیں تو جمہوری تقاضوں کا قتل ہے۔


راج بھونوں میں اپنے آدمی بٹھا کر اس نے گوا سے لے کر شمال مشرق تک جس طرح الیکشن میں اپنی ہار کو جیت میں بدلا ہے وہ ہمارے ملک کی آئینی جمہوریت کے سیاہ باب ہیں۔ یہ درست ہے کہ راج بھون میں اپنے آدمیوں کا بیجا استعمال کرنے میں کوئی پارٹی دودھ کی دھلی نہیں ہے لیکن بی جے پی نے اس فن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک غلط بات دوسری غلط بات کا جواز ہو سکتی ہے اہم سوال اس برائی، اس خامی اور آئین کی روح کی اس پامالی کو روکنے کا ہے جس کے لئے قانون سازی بہت ضروری ہے۔

در اصل صرف دل بدل قانون پر ہی نہیں ہمارے پورے جمہوری عمل کو گھن لگ گیا ہے اور پورے نظام پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے جمہوریت کی بنیاد انتخابات ہیں لیکن کیا ہمارے انتخابات سہی معنوں میں عوام کے جذبات، رجحان، امنگوں اور تمناؤں کے عکاس ہیں یا سبھی جائز اور ناجائز طریقوں سے عوام کی ذہن سازی کر کے ان کو انہیں کے اصل مسائل سے دور لے جا کر فروعی مسائل میں الجھا کر ان کا ووٹ حاصل کر لیا جاتا ہے، ان سب کے باوجود بھی کیا جو حکومت بر سر اقتدار آتی ہے وہ عوام کی نمائندہ حکومت ہوتی ہے۔


حالیہ پارلیمانی الیکشن کے نتائج کو ذرا گہرائی اور دوسرے رخ سے دیکھیے اور پھر سوچیے کیا یہ نمائندہ حکومت ہے اس نظام کا فائدہ اور نقصان سبھی پارٹیوں نے اٹھایا ہے اس لئے محض بی جے پی ہی اس کا نشانہ نہیں ہے بلکہ سوالیہ نشان اس نظام پر ہی ہے۔ حالیہ پارلیمانی الیکشن میں کل 60 کروڑ ووٹ پڑے ان میں سے 22 کروڑ ووٹ بی جے پی کو 12 کروڑ ووٹ کانگریس کو باقی 26 کروڑ ووٹ دیگر پارٹیاں لے گئیں یعنی آدھے سے بھی کم ووٹ پا کر بی جے پی (کوئی دوسری پارٹی بی ہو سکتی تھی) لوک سبھا میں اتنی بڑی اکثریت پا کر بر سر اقتدار آ گئی ۔کیا اسے نمایندہ حکومت کہا جا سکتا ہے اور کیا یہ ہمارے جمہوری نظام پر سوالیہ نشان نہیں کھڑے کر رہا ہے۔

دل بدل ہو یا دیگر برائیاں ان سب کی جڑ مکین ہے دولت نے حقیقت میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو یرغمال بنا لیا ہے، معمولی گاؤں پردھان، بی ڈی سی، کارپوریٹر اور کونسلر کے الیکشن میں جب کروڑوں روپیہ خرچ کر دیا جاتا ہے تو ایم پی، ایم ایل اے کے الیکشن میں کتنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہوگا، اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔ انتخابات پر نظر رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اے ڈی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ پارلیمانی الیکشن میں قریب ساٹھ ہزار کروڑ روپیہ خرچ ہوا ہے، یہ وہ رقم ہے جس کا حساب اے ڈی ار حاصل کر سکی ہے چور دروازہ سے کتنا پیسہ خرچ ہوا اس کا فی الحال ندازہ نہیں لگایا جا سکا ہے، لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ یہ مذکورہ رقم سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے یعنی عام انتخابات میں قریب ایک سو ہزار کروڑ روپیہ خرچ ہوا ہے اس میں وہ سرکاری اخراجات شامل نہیں ہیں جو وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کے سرکاری دوروں اور جلسوں کے انتظام میں سرکاریں خرچ کرتی ہیں، سوچا جا سکتا ہے کہ جب الیکشن اتنا منہگا ہوگا تو عام سیاسی کارکن جو ایمانداری سے خدمت کے جذبہ کے ساتھ سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے وہ الیکشن لڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔


وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے پورے انتخابی نظام پر از سر نو غور کریں دولت کے بے شرم اور بے غیرت مظاہرہ پر قدغن کے لئے کوئی ٹھوس اور انقلابی طریق کار نافذ کریں خود غرضی اور لالچ کی سیاست کے بجائے خدمت اور نظریات کی سیاست کو پھر میدان میں لائیں ورنہ کارپوریٹ گھرانوں کی دولت کے بل پر حکومتیں بنتی رہیں گی، جواب میں کارپوریٹ گھرانوں کو ملک کی دولت اور وسائل ہی نہیں عوام کے منہ سے روٹی تک چھین لینے کی چھوٹ ملی رہے گی جیسا کہ ہم اندھادھند نجکاری اور سرمایہ نکاسی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ جمہوریت ہندوستان کے ہر طبقہ کے غریبوں، محروموں درج فہرست اقوام و قبائل اور اقلیتوں کے لئے بزرگ کے ہاتھ کی لاٹھی جیسی ہے یہ لاٹھی چھن جائے تو اس کے اثرات بد فاشزم کی شکل میں نمودار ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Jul 2019, 10:10 PM