زندہ دفن کر دی گئی نو زائیدہ بچی بچا لی گئی، جانیں کہاں؟

پولیس نے ایک ایسی نوزائیدہ بچی کو بچا لیا، جسے اس کے والدین نے زندہ دفن کر دیا تھا۔ اس نومولود بچی کی حالت نازک ہے اور ایک مقامی ہسپتال میں ڈاکٹر اس کی جان بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

ایک نومولود بچی کو مٹی کے بنے ایک گھڑے میں بند کر کے اس گھڑے کو تقریباﹰ پورے کا پورا زمین میں دفن کر دیا گیا تھا، بچی سات گھنٹے تک زیر زمین رہی لیکن اس کے بعد اسے زندہ باہر نکال لیا گیا، بچی اب صحیح سلامت ہے۔ یہ واقعہ اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے منگل پندرہ اکتوبر کو پیش آیا۔

ایک مقامی پولیس افسر ابھینندن سنگھ نے بتایا کہ اس نوزائیدہ بچی کے زندہ دفنائے جانے کا پتہ جمعرات دس اکتوبر کو چلا اور اسے فوری طور پر علاج کے لیے ایک ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا۔

ایک کچے گھڑے میں زندہ بند کر دی گئی اس بچی کو ایک ایسی جگہ پر دفنایا گیا تھا، جہاں عام طور پر ہندو عقیدے کے مطابق لاشیں جلائی جاتی ہیں۔

اس بچی کی جان بچانے میں ایک ایسے مقامی تاجر کا کرادر کلیدی اہمیت کا حامل رہا، جس کا پولیس نے نام ہتیش کمار بتایا ہے اور جو وہاں اپنی اس نومولود بیٹی کی آخری رسومات کے لیے گیا تھا، جو مردہ پیدا ہوئی تھی۔


پولیس افسر سنگھ نے بتایا کہ ہتیش کمار نامی تاجر اس وقت حیران رہ گیا جب وہاں کام کرنے والے مزدور اس کی مردہ پیدا ہونے والے بیٹی کی قبر کھود رہے تھے اور اسے کسی بہت چھوٹے سے بچے کے رونے کی آواز سنائی دینے لگی۔

اس پر ہتیش کمار نے پولیس کو اطلاع کر دی۔ پولیس اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر اور یہ طے کرنے کے بعد کہ بچے کے رونے کی آواز کہاں سے آ رہی تھی، جب مٹی کے گھڑے کو توڑا، تو اس کے اندر ایک نومولود بچی تھی، جس ابھی زندہ تھی۔

پولیس نے اس بچی کو وہاں سے نکال کر بلاتاخیر بریلی شہر کے ایک ہسپتال پہنچا دیا۔ ابھینندن سنگھ نے بتایا کہ یہ پتہ چلانے کی کوشش جاری ہے کہ اس نومولود بچی کے والدین کون ہیں۔

بھارت میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، ایسے کئی واقعات بھی سننے میں آتے ہیں، جن میں نامولود بچے کی جنس کا علم ہو جانے کے بعد لڑکیوں کی پیدائش سے قبل اسقاط حمل کرا دیا یا پھر نوزائیدہ بچیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔


ایسا اکثر کم تعلیم یافتہ اور غربت کے شکار طبقات سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں ہوتا ہے، جن کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ہاں بیٹے پیدا ہوں۔

ایسے غریب گھرانوں میں لڑکیوں کو اس لیے مالی بوجھ سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم و تربیت پر اٹھنے والے اخراجات کے علاوہ ان کی شادی کے وقت جہیز پر بھی بہت زیادہ لاگت آتی ہے، جو بہت غریب گھرانوں کے لیے ایک بڑ مسئلہ ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Oct 2019, 7:12 AM