بابری مسجد دوبارہ اسی مقام پر تعمیر ہونی چاہیے: ڈاکٹر راجیو دھون

جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر دھون نے عدالت کو بتایا کہ ایک جگہ جب مسجد تعمیر ہو جاتی ہے تو وہ زمین ہمیشہ کے لیے مسجد کی ہو جاتی ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے جمعیۃ کے وکلاء کی بحث کو اطمینان بخش بتایا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

’’بابری مسجد کو شرپسندوں نے نہیں، بی جے پی کے لوگوں نے منہدم کرائی ہے۔ اس لیے اگر ہمیں ہندوستانی سیکولرزم پر ناز ہے تو مسجد اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کر دینا چاہیے کیونکہ بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو ایک منظم سازش کے تحت منہدم کی گئی تھی۔‘‘ یہ دلیل جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے 23 مارچ کو بابری مسجد تنازعہ کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کی سہ رکنی بنچ کے سامنے پیش کی۔ مسجد ،مندر، گرودوارہ ، جین مندروغیرہ سب کی اپنی اپنی حیثیت قرار دیتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ ایک بار مسجد کی تعمیر ہونے کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہوجاتی ہے ، منہدم ہونے کے بعد بھی اس کی حیثیت ختم نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو مسجد میں نمازپڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ کسی دوسری جگہ نماز ادانہیں کرسکتے سوائے شرعی مجبوری کے۔ لہٰذا اسماعیل فاروقی کے فیصلہ میں غلط کہا گیا ہے جس پر فاضل عدالت کونظرثانی کرنی چاہئے اور اس معاملے کی سماعت کثیر رکنی بنچ میں کرانی چاہئے۔‘‘

ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کے سامنے یہ بات بھی رکھی کہ بابری مسجد احاطہ کے باہر ایک مقام ہے جسے رام کا جنم استھان کہاجاتا ہے، جو کہ غلط ہے۔ مسجدکو مغل دورمیں تعمیرکیا گیا تھا جسے انگریزوں نے بھی قانونی حیثیت دی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ 1949 اور 1992 کو دو ایسے واقعات رونما ہوئے جو سیکولر ہندوستان پر بدنما داغ ہیں پہلے جب مسجد میں مورتی رکھ دی گئی اور بعد میں اسے مہندم کردیا گیا ۔ راجیو دھون نے بتایا کہ مسجد منہدم کرنے سے قبل دو رَتھ یاترائیں بھی نکالی گئی تھیں اور مسجد مہندم کرنے کے بعد بی جےپی نے مندرتعمیر کرانے کے لئے وہائٹ پیپر بھی جاری کیا تھا۔

بابری مسجد سماعت کے دوران ڈاکٹر راجیو دھون نے ایک انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہیں باربارفون کیا جاتا ہے کہ وہ بابری مسجد کا تنازعہ مصالحت سے حل کریں، لیکن میرا یہ مانناہے کہ بابری مسجد کو شہید کیا گیاہے لہذااسے دوبارہ اسی مقام پر بنایاجانا چاہئے۔‘‘ اس کے لیے انھوں نے حدیث کا بھی حوالہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ

حضور محمد ﷺ نے مدینہ سے تین میل دوراپنے ہاتھوں سے مسجد قبہ کی تعمیر کرائی تھی کیونکہ نماز مسجد میں اداکرنے کا حکم ہے۔ لہذا اسماعیل فاروقی کا فیصلہ غلط ہے کہ نماز کہیں بھی اداکی جاسکتی ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ حضورﷺ نے ایک بار گھروں میں نماز اداکرنے والوں کے گھرجلانے تک کا حکم دیا تھا ۔ ہر ایک مسجد کی شرعی حیثیت ہے اور اسے اسلام میں ایک مقام حاصل ہے لہذا بابری مسجد کی بھی وہی حیثیت ہے ۔

جمعیۃعلماء ہندکے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے بابری مسجد تنازعہ معاملہ پر عدالت میں ہوئی سماعت پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے وکلاء کی بحث سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ مقدمہ کو وسیع تر بنچ کے حوالے کرنے کے جو دلائل جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء نے پیش کئے ہیں، عدالت اس پر سنجیدگی سے غورکرے گی۔ مولانا مدنی نے ڈاکٹر راجیو دھون کی اس دلیل کی بھی تائید کی جس میں انھوں نے کہا کہ مسجد ایک بار جہاں بن جاتی ہے ہمیشہ کے لیے وہ زمین مسجد کی ہو جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایک بار جب کہیں مسجد بن جائے تو اسے نہ ہی منتقل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس مقام پر کوئی دوسری تعمیر ہوسکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم محب وطن شہری ہیں اور عدلیہ کا بھرپوراحترام کرتے ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ عدالت اس اہم معاملہ میں بھی انصاف کے تمام تر تقاضوں کو پوراکرنے والا فیصلہ دے گی ۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ چیف جسٹس دیپک مشراء کی سربراہی والی سہ رکنی بنچ میں جسٹس عبدالنظیر اور جسٹس بھوشن شامل ہیں۔ 23 مارچ کی دوپہر دو بجے بابری مسجد ہائی پروفائل مقدمہ کی سماعت شروع ہوتے ہی جمعیۃعلماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیود ھون نے اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کیا اور کہا کہ جسٹس ورما کا یہ کہنا کہ نماز کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے، غلط ہے کیونکہ نماز ادا کرنے کی جگہ مسجد ہے اور اسلام میں اس کی شرعی حیثیت ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔