سپریم کورٹ: بابری مسجد دوبارہ اسی مقام پر تعمیر ہو، جمعیۃ کے وکیل کی دلیل

مولانا سید ارشدمدنی نے کہا، ’’ وکلانے کی بحث سے ہم مطمئن ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ عدالت اس اہم معاملہ میں انصاف کے تمام تر تقاضوں کو پوراکرنے والا فیصلہ دے گی۔‘‘

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

پریس ریلیز

نئی دہلی:بابری مسجد ملکیت تنازعہ کی سماعت ایک بار پھر سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی بینچ کے سامنے عمل میں آئی جس کے دوران مسلم تنظیموں کی جانب سے سب سے پہلے جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹرراجیودھون نے عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کئے۔

ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ بابری مسجد کو شرپسندوں نے نہیں بلکہ بی جےپی کے لوگوں نے منہدم کرایا ہے نیز اگرہمیں ہندوستانی سیکولر ازم پر ناز ہے تو مسجد اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کردینا چاہئے کیونکہ بابری مسجد کو6 دسمبر 1992ء کو ایک منظم سازش کے تحت منہدم کردیاگیا تھا۔انہوں نے دوران بحث مزید کہا کہ مسجد منہدم کرنے سے قبل دو دورتھ یاترائیں بھی نکالی گئی تھیں اور مسجد مہندم کرنے کے بعد بی جے پی نے مندرتعمیر کرانے کے لئے وہائٹ پیپر بھی جاری کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 1949 اور 1992 کو دو ایسے واقعات رونما ہوئے جو سیکولر ہندوستان پر بدنما داغ ہے جب پہلے مسجد میں مورتی بیٹھا دی گئی اور بعد میں اسے مہندم کردیا گیا ۔

ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کومزید بتایا کہ بابری مسجد احاطہ کے باہر ایک مقام ہے جسے رام کا جنم استھان کہاجاتا ہے لہذا بابری مسجدکی جگہ کو رام کاجنم استھان کہنا غلط ہے نیز بابری مسجدکو مغل دورمیں تعمیرکیا گیا اور اسے انگریزوں نے بھی قانونی حیثیت دی تھی۔

عدالت میں ڈاکٹر راجیودھون نے انکشاف کیاکہ انہیں باربارفون کالز آتی ہیں کہ وہ بابری مسجد کا تنازعہ مصالحت سے حل کریں لیکن میرا یہ مانناہے کہ بابری مسجد کو شہید کیا گیاہے لہذااسے دوبارہ اسی مقام پر بنایاجانا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسجد ،مندر، گردوارہ ، جین مندروغیرہ سب کی اپنی ایک حیثیت ہے کسی کو منہدم نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک بار مسجد کی تعمیر ہونے کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہوجاتی ہے ۔ منہدم ہونے کے بعد بھی اس کی حیثیت ختم نہیں ہوتی نیز مسلمان کو مسجد میں نمازپڑھنے کا حکم دیا گیا ہے وہ کہیں بھی نماز ادانہیں کرسکتے سوائے شرعی مجبوری کے لہذا اسماعیل فاروقی کے فیصلہ میں غلط کہا گیا ہے جس پر فاضل عدالت کونظرثانی کرنی چاہئے اور اس معاملے کی سماعت کثیر رکنی بینچ میں کرانی چاہئے ۔

ڈاکٹر راجیو دھون نے حدیث کے حوالہ سے کہا کہ حضور محمد ﷺ نے مدینہ سے تین میل دوراپنے ہاتھوں سے مسجد قبہ کی تعمیر کرائی تھی کیونکہ نماز مسجد میں اداکرنے کا حکم ہے لہذا اسماعیل فاروقی کا فیصلہ غلط ہے کہ نماز کہیں بھی اداکی جاسکتی ہے ، حضورﷺ نے ایک بار اپنے گھروں میں نماز اداکرنے والوں کے گھرجلانے تک کا حکم دیا تھا ، ہر ایک مسجد کی شرعی حیثیت ہے اور اسے اسلام میں ایک مقام حاصل ہے لہذا بابری مسجد کی بھی وہی حیثیت ہے ۔

مولانا ارشد مدنی اپنے وکلاء کی بحث سے مطمئن

جمعیۃعلماء ہندکے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے مقدمہ میں کی پیش رفت پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے وکلاء کی بحث سے مطمئن ہے انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ مقدمہ کو وسیع تر بینچ کے حوالہ کرنے کے جو دلائل جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء نے پیش کئے ہیں عدالت اس پر سنجیدگی سے غورکرے گی اور مقدمہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے ایک وسیع تر بینچ کے حوالہ کرنے کا حکم صادرکرے گی ۔ مولانا مدنی نے کہا کے بحث کے دوران وکلانے درست دلائل دیئے ہیں مسجد ایک بارجہاں بن جاتی ہے ہمیشہ کے لئے مسجد ہی رہتی ہے ۔ نہ تو اسے منتقل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس مقام پر کوئی دوسری تعمیر ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ہم محب وطن شہری ہیں اور عدلیہ کا بھرپوراحترام کرتے ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ عدالت اس اہم معاملہ میں بھی انصاف کے تمام تر تقاضوں کو پوراکرنے والا فیصلہ دے گی ۔

جمعیۃ علماء کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت کے لیئے 6 جولائی کا دن مقرر کرتے ہوئے اپنی سماعت مکمل کردی ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔