بابری مسجد معاملہ کی سماعت 8 فروری تک ملتوی

اس معاملہ سے وابستہ 9 ہزار دستاویزات اور 90 ہزار صفحات میں درج شہادتیں فارسی، سنسکرت، عربی سمیت مختلف زبانوں میں درج ہیں ۔ سنی وقف بورڈ نے کورٹ سے مانگ کی ہے کہ ان دستاویزات کا ترجمہ کرایا جائے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

05 Dec 2017, 2:49 PM

بابری مسجد کی شہادت کو 25 سال ہوچکے ہیں ۔ سپریم کورٹ میں بابری مسجد – رام جنم بھومی تنازعہ کے تعلق سے مالکانہ حق پر سماعت کا آغاز آج (یعنی 5 دسمبر 2017) ہو گیا ہے۔ عدالت میں اب اگلی سماعت 8 فروری 2018 کو ہوگی۔ سماعت کے دوران سنی وقف بورڈ کے وکیل کپل سبل نے سنوائی 2019 تک ٹالنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سنی وقف بورڈ کا مطالبہ ہے کہ دستاویزات کو پورا کیا جائے۔

کپل سبل نے مطالبہ کیا کہ معاملہ کی سماعت 5 یا 7 ججوں کی بنچ کو 2019 کے عام انتخابات کے بعد کرنی چاہئے کیوں کہ معاملہ سیاسی ہو چکا ہے۔ سبل نے کہا کہ ریکارڈ میں دستاویز ادھورے ہیں۔ کپل سبل اور راجیو دھون نے اعتراض ظاہر کرتے ہوئے سماعت کے بائیکاٹ کرنے کی بات کہی۔

کپل سبل نے کہا کہ رام مندر این ڈی اے کے ایجنڈے میں ہے اور ان کے انتخابی منشور کا حصہ ہے اس لئے 2019 کے بعد ہی اس حوالے سے سماعت ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جولائی 2019 تک سماعت کو ٹال دیا جا نا چاہئے۔

اس کے جواب میں اتر پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہوئے تشار مہتا نے کہا جب دستاویز سنی وقف بورڈ کے پاس موجود ہیں تو ترجمہ شدہ کاپی دینے کی ضرورت کیوں ہے؟ عدالت عظمیٰ اس معاملہ پر فیصلہ کن سماعت کر رہی ہے۔ مسلم فریق کہنا ہے کہ اگرہر روزاس معاملہ کی سماعت ہوتی ہے تو بھی فیصلہ آنے میں ایک سال کا وقت لگے گا۔

واضح رہے کہ اس معاملہ سے وابستہ 9 ہزار دستاویزات اور 90 ہزار صفحات میں درج شہادتیں فارسی، سنسکرت، عربی سمیت مختلف زبانوں میں درج ہیں ۔ سنی وقف بورڈ نے کورٹ سے مانگ کی ہے کہ ان دستاویزات کا ترجمہ کرایا جائے۔

ایودھیا کی تاریخ

  • 1528 ۔ ایودھیا میں میر باقی نے بابری مسجد کی تعمیر کرائی۔
  • 1949 ۔ خفیہ طور سے بابری مسجد میں رام کی مورتی رکھ دی گئیں۔
  • 1959۔ نرموہی اکھاڑے کی طرف سے متنازعہ مقام کے تعلق سے ٹرانسفر کی عرضی داخل کی ۔ بعد ازیں 1961 میں یو پی سنی سنٹرل بورٹ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی عرضی داخل کی۔
  • 1986۔ متنازعہ مقام کو ہندو عقیدت مندگان کے لئے کھول دیا گیا۔ اسی سال بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل ہوئی۔
  • 1990 ۔ لال کرشن اڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا کا آغاز کیا۔
  • 1991 ۔ رتھ یاترا کی لہر سے بی جے پی اتر پردیش کے اقتدار میں آ گئی۔ اسی سال مندر تعمیر کے لئے ملک بھر سے اینٹیں بھیجی گئیں۔
  • 6 دسمبر 1992 ۔ ایودھیا پہنچ کر ہزاروں کار سیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد جگہ جگہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ پولس نے لاٹھی چار ج کیا اور فائرنگ میں کئی لوگوں کی موت ہو گئی۔ جلد بازی میں ایک عارضی رام مندر بنا دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤنے مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ کیا۔
  • 16 دسمبر 1992 ۔ بابری مسجد انہدام کے لئے ذمہ دار صورت حال کی جانچ کے لئے ایم ایس لبراہن کمیشن تشکیل دی گئی۔
  • 1994۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔
  • 4 مئی 2001 ۔ خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔
  • یکم جنوری 2002 ۔ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے ایک ایودھیا کمیشن کا قیام کیا جس کا مقصد تنازعہ کو حل کرنا اور ہندو و مسلمانوں سے بات کرنا تھا۔
  • یکم اپریل 2002 ۔ ایودھیا کے متنازعہ مقام پر مالکانہ حق کے تعلق سے الہ آباد ہائی کورٹ کی تین ججو ں کی بنچ نے سماعت کاآغاز کیا۔
  • 5 مارچ 2003 ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کرنے کا حکم دیا تاکہ مندر یا مسجد کے حوالے سے ثبوت مل سکیں۔
  • 22 اگست 2003 ۔ محکمہ آثار قدیمہ نے ایودھیا میں کھدائی کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ پیش کر دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مسجد کے نیچے 10 ویں صدی کے مندر کے باقیات کا اشاروہاں ملتا ہے۔ اس رپورٹ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے چیلنج کیا۔
  • ستمبر 2003 ۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ مسجد انہدام کے لئے اکسانے والے 7 ہندو رہنماؤ ں کو پیشی پر بلایا جائے۔
  • جولائی 2009 ۔ لبراہن کمیشن نے کمیشن تشکیل کے 17 سال بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ سونپی۔
  • 26 جولائی 2010۔ معاملہ کی سماعت کر رہے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھا اور تمام فریقین سے آپسی رضامندی سے حل نکالنے کی صلاح دی۔ لیکن کوئی فریق آگے نہیں آیا۔
  • 28 ستمبر 2010 ۔ سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے متنازعہ معاملہ میں فیصلہ دینے سے روکنے والی عرضی خارج کردی جس کے بعد فیصلہ کی راہ ہموار ہوئی۔
  • 30 ستمبر 2010 ۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے تاریخی فیصلہ سنایا، جس کے تحت متنازعہ زمین کو تین حصو ں میں تقسیم کر تے ہوئے ایک حصہ رام مندر، دوسرا سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑے کو دے دیا ۔
  • 9 مئی 2011 ۔ سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔
  • 21 مارچ 2017 ۔ سپریم کورٹ نے معاملہ کو آپسی رضامندی سے حل کرنے کی صلاح دی۔
  • 19 اپریل 2017 ۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کے معاملے میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے کئی رہنماؤں کے خلاف مجرمانہ مقدمہ چلانے کا حکم سنایا۔
  • 16 نومبر 2017۔ ہندو گرو شر ی شری روی شنکر نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کی اور اس ضمن میں انہوں نے کئی فریقوں سے ملاقات بھی کی۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہیہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔