’آروگیہ سیتو ایپ‘ کورونا سے نمٹنے کا نہیں نجی جانکاری حاصل کرنے کا ذریعہ: ماہرین

”آروگیہ سیتو دراصل ایک سرویلانس ایپ ہے۔ یہ کانٹیکٹ ٹریسنگ کے نام پر آپ کے جی پی ایس لوکیشن اور سماجی رابطوں کی جانکاری جمع کرتا ہے جس کا استعمال آپ کے سماجی گراف کی پہچان کے لیے کیا جا سکتا ہے۔“

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم کے نام پیغام میں جب لاک ڈاؤن کو 3 مئی تک بڑھانے کا اعلان کیا تو انھوں نے ملک کے باشندوں سے 7 وعدے بھی لیے تھے۔ ان میں سے ایک تھا کہ سب لوگ آروگیہ سیتو ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایپ کورونا وائرس کا کانٹیکٹ ٹریسنگ ایپ ہے۔ پی ایم کے پیغام سے کوئی دو ہفتہ پہلے سے حکومت کا محکمہ ٹیلی مواصلات تقریباً ہر روز کم از کم دو پیغام بھیج کر اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ اس ایپ کو سرکاری نجی شراکت داری کے تحت نیشنل انفارمیٹکس سنٹر (این آئی سی) نے تیار کیا ہے۔ حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ ایپ کورونا وائرس کے خلاف ملک کی لڑائی میں سب سے آگے رہ کر مدد کرے گا۔ لیکن کیسے، یہ ابھی تک طے نہیں ہے۔

یوزر سے صرف موبائل نمبر مانگنے والے سنگاپور کے کانٹیکٹ ٹریسنگ ایپ ٹریس ٹوگیدر کے برعکس آروگیہ سیتو ایپ یوزر سے تمام طرح کی جانکاریاں مانگتا ہے۔ مثلاً، نام، صحت کی جانکاری، پیشہ اور جی پی ایس لوکیشن۔ ان ساری جانکاریوں کو اس ایپ کو دینے کے بعد اس ایپ سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ یوزر کا مذہب، ذات اور سوشل اسٹیٹس کیا ہے۔ جیسے ہی آپ جی پی ایس لوکیشن دیتے ہیں تو یہ آپ کا پتہ بھی ایپ کو دے دیتا ہے۔ ویسے کانٹیکٹ ٹریسنگ کے لیے یوزر کے لوکیشن کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سبھی ڈاٹا ایک سنٹرل کلاؤڈ سرور میں ریکارڈ کیا جاتا ہے۔


اگر یوزر نے اپنا بلوٹوتھ آن کر رکھا ہے تو یہ ایپ یوزر کے نزدیک آنے والے ہر شخص کی تفصیل حاصل کر لے گا جس کے فون کا بلو ٹوتھ آن ہو۔ اس طرح ایپ کو ان لوگوں کا پتہ لگانے میں مدد کرتا ہے جو یوزر سے ملے ہیں، وہ کب اور کہاں ملے تھے۔ ایسے میں اگر اس ایپ کا یوزر کورونا پازیٹو پایا جاتا ہے تو حکومت اس ایپ کے ان سبھی یوزرس کو اس انفیکشن سے متاثر شخص کے بارے میں مطلع کرے گا جن سے وہ گزشتہ 30 دن میں ملا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایپ کی شرطوں میں لکھا گیا ہے کہ اگر ایپ کے ذریعہ کوئی غلط بات پھیلتی ہے تو اس ایپ کے اصل مالک مرکزی حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

ہندوستانی زبانوں کے ڈیجیٹل رائٹس (حقوق) کی لڑائی لڑنے والے اور انڈک پروجیکٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انیوار اروند کہتے ہیں کہ "آروگیہ سیتو دراصل ایک سرویلانس (نگرانی) ایپ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کانٹیکٹ ٹریسنگ کے نام پر آروگیہ سیتو آپ کے جی پی ایس لوکیشن، سوشل کانٹیکٹس یعنی سماجی رابطوں کی جانکاری جمع کرتا ہے اور اس کا استعمال آپ کے سماجی گراف کی شناخت کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ ایپلی کیشن بہت زیادہ جانکاری جمع کرتا ہے اور کانٹیکٹ ٹریسنگ کے لیے اس ڈاٹا میں سے کوئی بھی ضروری نہیں ہے۔ اگر آروگیہ سیتو واقعی میں صرف کانٹیکٹ ٹریسنگ کے لیے تھا تو وہ صرف یوزر کے ٹیلی فون نمبر کو درج کرتے۔"


اگر اس ایپ کو واقعی میں اثرانداز بنانا تھا تو اس سے ان لوگوں کو مدد ملنی چاہیے تھی جن پر کورونا وائرس کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ لیکن اس طبقہ کے زیادہ لوگوں کے پاس اسمارٹ فون ہے ہی نہیں۔ ہندوستان میں 130 کروڑ لوگ ہیں لیکن اسمارٹ فون صرف 40 کروڑ کے پاس ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں اسمارٹ فون کی پہنچ صرف 28 فیصد ہی ہے۔ اروند آگے کہتے ہیں کہ "اسمارٹ فون کے اس سطح پر استعمال کے ساتھ یہ ایپ ٹریسنگ میں مدد نہیں کرے گا، خاص طور سے تب جب کہ ہم وائرس کی کمیونٹی اسپریڈ یعنی سماجی پھیلاؤ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔"

وہیں کورونا وائرس کا اثر روکنے میں تکنیک کے استعمال پر انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے لیے ایک پیپر لکھنے والے سدھارتھ دیب کا سوال ہے کہ "سب سے دلچسپ تو یہ ہے کہ اس ایپ کو بنانے کا شروعاتی منصوبہ میں شامل لوگ ہی مانتے ہیں کہ "یہ ایپ کم از کم 50 فیصد آبادی کو ڈاؤن لوڈ کرنا چاہیے، تبھی یہ اثرانداز ہوگا۔ لیکن چونکہ لوگوں کے پاس اسمارٹ فون ہی نہیں ہے تو کیا یہ مان لینا چاہیے کہ یہ ایپ ناکام ہو چکا ہے، یا ہونے والا ہے؟"


اسی سے ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ آخر حکومت کیوں اس ایپ کو لے کر اتنا زور دے رہی ہے۔ سرکاری افسران نے آروگیہ سیتو ایپ کی ضرورت ثابت کرنے کے لیے سنگاپور کے ٹریس ٹوگیدر کی کامیابی کا ہی ذکر کیا تھا۔ لیکن سنگاپور کے وزیر اعظم نے تو اس بات کو نشان زد کیا تھا کہ اسپتالوں اور میڈیکل سہولیات کے مضبوط نیٹورک کی وجہ سے ہی کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملی نہ کہ کسی ایپ سے۔

انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اپار گپتا کہتے ہیں کہ "ہندوستان میں صحت اہلکاروں اور اسپتالوں کی اندرونی میڈیکل صلاحیت کے بغیر یہ ایپ اپنے آپ میں کوئی حل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا سے لڑائی میں تکنیک کے استعمال کے امکانات تلاشنے والی کمیٹی میں وزارت صحت کے کسی رکن کا نہ ہونا فکرانگیز ہے۔ دراصل یہ اس وبا کو کنٹرول کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے کی جگہ صرف تکنیکی مداخلت کو ترجیح دینے کی ایک مثال ہے۔"


اس ایپ کو تیار کرنے والی ٹیم میں سبھی مرد رکن ہیں اور اس میں ٹرائی چیئرپرسن آر ایس شرما، ہندوستان کے اہم سائنسی مشیر کے. وجے راگھون، الیکٹرانکس وزارت اور آئی ٹی سکریٹری اجے ساہنی، محکمہ ٹیلی مواصلات کے سکریٹری انشو پرکاش، مہندرا اینڈ مہندرا کے چیئرپرسن آنند مہندرا، ٹاٹا سنز کے چیئرپرسن این چندرشیکھرن اور قومی سلامتی مشیر بورڈ کے رکن وی. کامکوٹی شامل ہیں۔ اس ٹیم کو وزیر اعظم دفتر کے ڈپٹی سکریٹری مہنرر سنگھ یادو کا بھی تعاون حاصل ہے۔

حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ اس میں صحت اور خاندانی فلاح و بہبود وزارت کا کوئی بھی نمائندہ نہیں ہے اور نہ ہی میڈیکل یا وبائی معاملوں کی مہارت رکھنے والا کوئی شخص ہے۔ گپتا کہتے ہیں کہ اگر اس ایپ کو اثرانداز اور قابل استعمال بنانا تھا تو اس میں میڈیکل ماہرین کی رائے لی جانی چاہیے تھی۔


ایسی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ حکومت کورونا وبا کے بعد بھی اس ایپ کا استعمال جاری رکھ سکتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ایپ کے ذریعہ ملنے والے ڈاٹا کی مانیٹرنگ کے لیے ایک کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔