کیا اورنگ زیب کی اس حقیقت سے بھی کوئی واقف ہے؟

اورنگ زیب کو اکثر ہندو مخالف کی شکل میں پیش کیا جاتا رہا ہے جو درست نہیں۔ علی گڑھ سے 40 کلو میٹر دور بلدیو قصبہ میں داؤ جی مہاراج کا مندر ایک ایسا مندر ہے جہاں اورنگ زیب نے 5 گاؤں تحفہ میں دیئے تھے۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

متھرا: سخت گیر ہندوؤں کی نظروں میں مغل سلطنت اکثر نشانے پر رہتی ہے، خصوصاً اورنگ زیب کو وہ تنقید کا خوب نشانہ بناتے ہیں۔ مغلیہ دور کے سب سے زیادہ وقت تک بادشاہ رہے اورنگ زیب پر اکثر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ اس نے مندر تڑوائے۔ لیکن تاریخ کے صفحات پر کچھ ایسی کہانیاں موجود ہیں جو لوگوں کے ذہن میں بٹھائی گئی ان کی منفی شبیہ سے بالکل مختلف ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے ہیڈ ندیم رَضوی کا کہنا ہے کہ ’’اورنگ زیب ایک خالص بادشاہ تھا اور اسے بادشاہت کرنی تھی۔ جہاں اسے ضرورت تھی اس نے وہاں ویسا کیا۔ کچھ جگہ اس نے مندر تڑوائے اور کچھ مندروں کو تحفے دیئے۔‘‘

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

علی گڑھ سے 40 کلو میٹر دور بلدیو نام والے قصبے میں داؤ جی مہاراج کا مندر ایسا ہی ایک مندر ہے جہاں اورنگ زیب نے 5 گاؤں تحفہ میں دیئے تھے۔ ان پانچوں گاؤوں سے حاصل ہونے والا ٹیکس اس مندر کو دیا جاتا تھا اور آج بھی سرکاری خزانے سے اس مندر کو فنڈ حاصل ہوتا ہے۔ بلدیو متھرا سے شمالی سمت میں 20 کلو میٹر کی دوری پر ہے اور یہ دنیائے عالم میں ’ہرنگا ہولی‘ کے لیے مشہور ہے۔

متھرا شری کرشن کی جائے پیدائش ہے۔ کاشی کے بعد یہاں سب سے زیادہ مندر ہیں۔ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہیں گووردھن، ورندراون جیسے مذہبی مقامات ہیں۔ ہندو مذہبی عقیدوں کے مطابق شری کرشن بھگوان وِشنو کے اَوتار ہیں اور وہ اعلیٰ اعزاز یافتہ ہیں۔ شری کرشن کی پیدائش متھرا کی ایک جیل میں ہوئی تھی جہاں ان کے ماما کنس نے ان کی جان لینے کی کوشش کی لیکن والد واسودیو انھیں پانی کے راستے بچا لے گئے۔

ناانصافی کے خلاف انصاف کی لڑائی کے لئے اپنے بڑے بھائی بلرام کا سب سے زیادہ تعاون ملا۔ انہی کا نام بلدیو بھی ہے اور شری کرشن انھیں محبت اور عزت دیتے ہوئے ’داؤ جی‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ متھرا سے 20 کلو میٹر شمال میں مہاون تحصیل میں ان کے ہی بڑے بھائی بلدیوکا مندر ہے۔ تقریباً 500 سال قدیم اس مندر کو اورنگ زیب نے 5 گاؤں تحفہ میں پیش کیےتھے۔

کیا اورنگ زیب کی اس حقیقت سے بھی کوئی واقف ہے؟

مندر کے خادم انل کمار پانڈے بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’اس کا یہ مطلب تھا کہ 580 ایکڑ کی زمینداری داؤ جی مہاراج کے نام لکھ دی گئی تھی جس سے سرکاری خزانے میں جمع ہونے والا پیسہ مندر کی دیکھ ریکھ کے لئے ملتا تھا۔‘‘ تقریباً 10 ہزار کی آبادی والے بلدیو قصبے میں یہ بات سب کو معلوم ہے۔ یہاں کے مندر انتظامیہ سے جڑے ایک دیگر خادم برجیش کمار پانڈے برج واسیوں میں مقبول ایک داستان سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اورنگ زیب مندروں کو توڑتا ہوا متھرا کی طرف بڑھ رہا تھا اور اسے بلدیو مندر کی جانکاری ملی۔ وہ جب بھی اپنے ساتھیوں سے پوچھتا تھا تو وہ جواب دیتے تھے کہ دو کوس دور ہے۔ گھنٹوں چلنے کے بعد بھی جواب ملتا تھا ’دو کوس دور‘۔ اس سے اورنگ زیب کے من میں داؤ جی کی طاقت کا اندازہ ہوا اور اس نے مندر توڑنے کا ارادہ ختم کر دیا، ساتھ ہی 5 گاؤں کی پنشن بھی باندھ دی۔‘‘

پروفیسر ندیم رَضوی نے اورنگ زیب پر ریسرچ کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ’’اورنگ زیب فرقہ پرست بادشاہ نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ہندوستان کی اہم ریاستوں کا گورنر راجپوتوں کو کیوں بناتا جب کہ ریاستیں صرف شہزادے سنبھالتے تھے! وہ ایک بادشاہ تھا اور بادشاہت کا اس کا اپنا طریقہ تھا۔ کہیں وہ مسلمانوں کو خوش کرتا تھا اور کہیں ہندوؤں کو۔‘‘ مندر بلدیو، جو کہ ہرنگاہولی کے لیے کافی مقبول ہے، اس تعلق سے مقامی باشندہ وِپن گرگ بتاتے ہیں کہ ’’یہ مندر کے احاطے میں کھیلی جاتی ہے جس میں سینکڑوں دیور -بھابھی شامل ہوتے ہیں۔‘‘

کیا اورنگ زیب کی اس حقیقت سے بھی کوئی واقف ہے؟

مندر کے نقارخانے کے باہر ایک تختی لگی ہوئی ہے جس پر اورنگ زیب کے ذریعہ مندر کو دیے گئے پانچ گاؤں کا تذکرہ ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اورنگ زیب نے یہاں شاہی نقارخانے کی تعمیر بھی کرائی تھی۔ یہاں پرلکھا ہے ’’اس شاہی نقار خانے کی تعمیر مغل بادشاہ عالمگیر اورنگ زیب نے سمبت 1729 سنہ 1672 میں کرائی تھی۔ نقار خانے کے انتظام کے لیے 5 گاؤں بطور معافی جاگیر مندر کو تحفہ میں دیا گیا۔ اس جاگیر معافی کو مغلیہ بادشاہ شاہ عالم نے برقرار رکھتے ہوئے نقارخانے اور مندر کے بھوگ راگ کے انتظام کے لیے ڈھائی گاؤں مزید بڑھا کر ساڑھے سات گاؤں کی جاگیر مندر کے خادم شری شوبھری ونشاونتاش آدی گوڑ ویپر ونش مارتنڈ گوسوامی شری کلیان دیو جی کی نسل گوسوامی ہنس راج جی اور جگناتھ جی کو تحفہ میں پیش کیا تھا اور مندر کے انتظام اور بلبھدر کنڈ کے مالکانہ حق کے ساتھ مکمل پرگنہ مہاون کے فی گاؤں دو روپیہ اضافی مال گزاری سردیہی واسطے دیو استھان شری داؤ جی مہاراج کو تحفہ میں دیا جس کا فرمان 1196 فصلی یعنی سمبت 1840 وکرم چیتر شکل 3 کو جاری کیا گیا۔

مورخ رَضوی بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ کاشی اور متھرا کے دوسرے مندروں کو بھی اورنگ زیب نے تحفے پیش کیے۔ کچھ مندروں میں، جن میں پہلے کے مغل بادشاہوں نے عطیہ دینے کی روایت شروع کی تھی اسے اورنگ زیب نے جاری رکھا۔

مہاون کے تحصیل دار پون پاٹھک کو کوئی دستاویز دستیاب کرانے میں ناکام ہیں جبکہ متھرا کے معروف مورخ گھنشیام پانڈے دعویٰ کرتے ہیں کہ اورنگ زیب نے داؤ جی مہاراج مندر کو پانچ گاؤں کی جاگیر بطور معافی دی تھی جس کے پختہ ثبوت ہیں۔ مندر کے ریسیور آر کے پانڈے بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ فی الحال اورنگ زیب والی تختی کو ہٹا دیا گیا۔ آر کے پانڈے کے مطابق وہ محفوظ ہے چونکہ نقار خانے میں تعمیری کام چل رہا ہے اس لئے کام مکمل ہونے کے بعد اسے پھر سے وہیں پرلگا دیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔