کے سی آر کا قومی سیاست کی جانب سفر کا مقصد ’مودی کی مدد‘

کے سی آر کا قومی سیاست کی جانب قدم بڑھانے کا سیدھا مقصد ہے کہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں مودی کے خلاف کوئی ایک محاذ نہ بن سکے بلکہ دو تین محا ذ بن جائیں تاکہ مودی کی راہ ہموار ہو جائے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

تلنگانہ اسمبلی انتخابات کا نتیجہ جب تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) کے حق میں آیا تھا تو 11 دسمبر کو ہی کے سی آر یعنی کلواکنتلا چندر شیکھر راؤ نے بیان دے دیا تھا کہ ’’ہم قومی سیاست میں بہت اہم کردار نبھانے جا رہے ہیں، ہم قومی سیاست کے منظرنامے کو نئی شکل عطا کریں گے۔‘‘ وہ اپنے اس بیان پر اب آگے بڑھ گئے ہیں اور تلنگانہ کی سیاست سے نکل کر قومی سیاست کی طرف قدم بڑھا دیا ہے، کے سی آر کا قومی سیاست کی جانب قدم بڑھانے کا سیدھا مقصد ہے کہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں مودی کے خلاف کوئی ایک محاذ نہ بن سکے بلکہ دو تین محا ذ بن جائیں تاکہ مودی کی راہ ہموار ہو جائے ۔ اس جانب پہلا قدم اٹھا تے ہوئے انھوں نے اپنے بیٹے کے. ٹی. راما راؤ کو پارٹی کا کارگزار صدر بنا دیا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ وہ حکومت سازی کے بعد ریاست کی دیکھ ریکھ بیٹے کے حوالے کر قومی سیاست میں قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں۔

کانگریس کارکن کے طور پر اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے کے سی آر نے نئی ریاست تلنگانہ کے قیام اور پھر اس کے وزیر اعلیٰ بننے تک کا سفر سیاست کی تیز لہروں سے گزرتے ہوئے کیا ہے اور وہ عوام کی نبض سے بھی واقف ہو چکے ہیں، یہی سبب ہے کہ ان کی پارٹی سے 88 اراکین اسمبلی منتخب ہوئے۔ لیکن ان کا قومی سیاست میں قدم رکھنا ان کی ’لالچ‘ اور چندرا بابو نائیڈو سے شدید اختلافات کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ انھوں نے تلنگانہ کی عوام سے جو وعدے کیے ہیں اس کو پورا کرنے کی طرف توجہ دیتے اور دھیان ریاست کو ترقی کی رفتار عطا کرنے پر ہونا چاہیے۔ حیرانی ہے کہ مرکز کی مودی حکومت پر تلنگانہ کے ڈیولپمنٹ کے لیے دباؤ بنانے کی جگہ خود قومی سیاست میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کر لیا۔

ایسے وقت میں جب کہ عام انتخابات نزدیک ہیں، کے سی آر کا یہ فیصلہ کافی کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ بی جے پی کی حالت خستہ ہے، مودی حکومت کے تئیں عوام میں ناراضگی ہے۔ تین انتہائی اہم ریاستوں میں کانگریس نے بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا ہے، تو پھر اچانک کے سی آر نے تلنگانہ اپنے بیٹے کے حوالہ کر بی جے پی اور کانگریس کے خلاف کھڑے ہونے کا اعلان کیوں کر دیا۔ انھوں نے آخر یہ بیان کیوں دیا کہ ’’تلنگانہ نے پورے ملک کو راہ دکھائی ہے۔ آج تلنگانہ غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی ریاست ہے۔‘‘ بات صاف ہے کہ وہ ملک میں بھی ’غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی‘ حکومت کی بات کر کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے کس کو فائدہ پہنچے گا۔ یقیناً بی جے پی کو۔ تو کیا ’کے سی آر‘ بی جے پی کے اشارے پر قومی سیاست میں قدم رکھ رہے ہیں۔ کیا ان کا مقصد کانگریس ووٹ میں سیندھ لگانا ہے!

یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کے سی آر مودی حکومت کے خلاف بولتے ضرور ہیں لیکن جب ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانا ہوتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اس وقت جب پورے ملک کے کسان، نوجوان اور دلت طبقات مودی حکومت سے پیچھا چھڑانے کے لیے کانگریس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو کے سی آر خود کو بی جے پی اور کانگریس کا متبادل بتا کر عام انتخابات میں مقابلہ سہ رخی بنانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ ان کا یہ قدم بی جے پی کو تو فائدہ پہنچائے گا ہی، تلنگانہ کے عوام کے ساتھ بھی کسی دھوکے سے کم نہیں ہے۔ ریاست کی عوام نے ان پر اعتماد کر کے ووٹ دیا تاکہ وہ فرنٹ پر آ کر کام کریں اور ملک میں تلنگانہ کا نام روشن کریں، لیکن انھوں نے تو اس سے نظریں پھیر کر عام انتخابات کو ٹارگیٹ بنا لیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Dec 2018, 1:04 PM