نقوی کے استعفیٰ کے بعد مودی کی کابینہ ہوئی مسلمانوں سے پاک

وزیر اعظم مودی کے آٹھ سالہ دور میں یہ پہلا موقع ہے جب مسلم سماج سے تعلق رکھنے والا ایک بھی رکن ان کی وزراء کونسل کا حصہ نہیں ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما مختار عباس نقوی کے بدھ کو مرکزی کابینہ سے استعفیٰ دینے کے بعد، وزیر اعظم نریندر مودی کے آٹھ سالہ دور اقتدار میں یہ پہلا موقع ہے جب مسلم سماج سے تعلق رکھنے والا ایک بھی رکن ان کی وزراء کونسل کا حصہ نہیں ہے۔نقوی اس وقت راجیہ سبھا کے رکن ہیں۔ ان کی راجیہ سبھا کی رکنیت آج ختم ہو رہی ہے۔ نقوی کی میعاد ختم ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں بھی یہی صورتحال ہونے والی ہے۔ دونوں ایوانوں میں بی جے پی کے 395 ارکان میں سے ایک بھی رکن مسلم سماج سے تعلق نہیں رکھتا۔

پچھلے مہینے، 15 ریاستوں میں راجیہ سبھا کی 57 سیٹوں کے لیے انتخابات ہوئے کیونکہ ان سیٹوں کی نمائندگی کرنے والے ارکان کی میعاد 21 جون اور 1 اگست کے درمیان ختم ہو رہی تھی۔نقوی کے علاوہ بی جے پی کے ایم جے اکبر اور سید ظفر اسلام بھی شامل تھے۔ تاہم ان میں سے کسی کو بھی پارٹی نے راجیہ سبھا کا امیدوار نہیں بنایا۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ارکان پارلیمنٹ تمام برادریوں کے لیے کام کرتے ہیں اور وہ کسی خاص مذہب کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔


2014 کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے بعد جب مودی پہلی بار وزیر اعظم بنے تو نجمہ ہپت اللہ کو مسلم سماج کی واحد نمائندہ کے طور پر ان کو وزراء کونسل میں شامل کیا گیا۔ انہیں اقلیتی امور کی وزارت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ سال 2016 میں جب ہپت اللہ کو منی پور کا گورنر بنایا گیا تو یہ ذمہ داری نقوی کو دی گئی جو اقلیتی امور کی وزارت میں وزیر مملکت تھے۔ سال 2016 میں مدھیہ پردیش سے راجیہ سبھا کے رکن ایم جے اکبر کو وزارت خارجہ میں وزیر مملکت بنایا گیا تھا۔تاہم، ایک خاتون صحافی کی طرف سے لگائے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد انہیں وزراء کی کونسل سے استعفیٰ دینا پڑا۔ وہ مودی کی قیادت والی حکومت میں پہلے وزیر تھے جنہوں نے اس طریقے سے استعفیٰ دیا۔

اکبر کے استعفیٰ کے بعد، نقوی مرکزی کابینہ میں مسلم سماج کے نمائندے تھے۔دوسری طرف جہاں تک پارلیمنٹ میں بی جے پی کا ایک بھی رکن نہ ہونے کا تعلق ہے، یہ صورتحال نقوی کو وزیر ہونے کے باوجود راجیہ سبھا کے لیے دوبارہ نامزد نہ کرنے اور اکبر اور ظفر اسلام میں سے کسی کو بھی راجیہ سبھا میں نہ بھیجنے کی وجہ سے ہے۔ واضح رہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں پارلیمنٹ میں بی جے پی کے مسلم ارکان کی موجودگی بہت کم رہی ہے۔ نقوی تین بار راجیہ سبھا کے رکن رہے جبکہ ایک بار وہ رام پور سے الیکشن جیت کر لوک سبھا بھی پہنچے۔


شاہنواز حسین، جو اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی کابینہ میں تھے ، دو بار لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ پہلی بار وہ کشن گنج سے جیتے اور دوسری بار بھاگلپور سے الیکشن جیت کر لوک سبھا کے رکن بنے۔ وہ اس وقت بہار حکومت میں وزیر صنعت ہیں۔ سکندر بخت جو کہ بی جے پی کے بانی رکن تھے، دو بار راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے۔ وہ بی جے پی کے پہلے تین جنرل سکریٹریوں میں سے ایک تھے۔ ایک طویل عرصے کے بعد یہ ہو رہا ہے کہ بی جے پی کا کوئی مسلمان رکن پارلیمنٹ میں نہیں ہوگا۔

اس بارے میں بی جے پی اقلیتی محاذ کے صدر جمال صدیقی کا کہنا ہے کہ سیاست کو مذہب کے چشمے سے نہیں دیکھا جانا چاہئے اور ویسے بھی ارکان پارلیمنٹ عوام کے نمائندے ہوتے ہیں کسی خاص مذہب کے نہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہاں (پارلیمنٹ) ہمارے مذہب سے ہماری ذات کا کوئی رکن نہیں ہے، تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہمارے ملک کے لوگ وہاں ہیں۔ بی جے پی میں ذمہ داریاں بدلتی رہتی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ پارٹی تمام برادریوں کی نمائندگی کو یقینی بنائے گی۔ بہار اور اتر پردیش میں بی جے پی کے ایم ایل اے اور وزیر بھی ہیں۔ بہار میں شاہنواز حسین وزیر ہیں، اتر پردیش میں دانش آزاد انصاری وزیر ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔