15 سالہ بچے نے اپنی زندگی ختم کرنے کے لئے صدر جمہوریہ سے مانگی اجازت

آج کے دور میں والدین کے مابین اختلافات ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کی وجہ سے بہت سے معصوم بچے ذہنی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

والدین میں کئی مرتبہ اختلافات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ بچے نفسیاتی امراض کے شکار ہو جاتے ہیں یعنی والدین کے اختلافات سے اگر سب سے زیادہ کوئی متاثر ہوتا ہے تو وہ اور کوئی نہیں بلکہ ان کے خود کے بچے ہی ہوتے ہیں۔ یہ آپسی اختلافات بچے کی ذہنی نشو نما کو بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ دونوں میں علیحدگی بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ کئی مرتبہ بچے اس سے اور زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ بہار کے بھاگلپور ضلع کا ایک بچہ اپنے والدین کے اختلافات سے اتنا زیادہ پریشان ہے کہ اس نے اپنی زندگی ختم کرنے کے لئے صدر جمہوریہ سے اجازت مانگی ہے۔ صدر جمہوریہ کے دفتر نے اس بچے کا یہ خط مرکزی حکومت کو بھیج دیا ہے اور اس معاملہ کی جانچ شروع ہو گئی ہے۔

دل دہلا دینے والی اس بچے کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ اس کے والدین آپسی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہتے اور دونوں نے ایک دوسرے پر مقدمات درج کرائے ہوئے ہیں۔ اس بچے کے والد اور والدہ، دونوں نے ایک دوسرے کے اوپر ناجائز تعلقات رکھنے کے الزام لگائے ہیں۔ یہ بچہ فی الحال اپنے والد کے ساتھ جھارکنڈ کے دیو گھر میں رہتا ہے، اس کے والد رورل ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں ڈسٹرکٹ منیجر کے عہدے پر کام کر رہے ہیں جبکہ اس کی والدہ پٹنہ کے ایک بینک میں اسسٹنٹ منیجر کے عہدے پر کام کر رہی ہیں۔ والدین کے اختلافات کی وجہ سے اس بچے کا بچپن دادا کے ساتھ گزرا لیکن دادا کے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بچہ اپنے والد کے ساتھ رہ رہا ہے۔


اس 15 سالہ بچے کے دادا اور چاچا نے تمام حالات کے لئے بچے کی والدہ کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ دوسری جانب خبر ہے کہ اس بچہ کے والد کو کینسر ہو گیا ہے جس کی وجہ سے یہ بچہ اس قدر پریشان ہو گیا ہے کہ اس نے صدر جمہوریہ کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ وہ اس کو اپنی زندگی ختم کرنے کی اجازات دے دیں۔

اس بچہ نے خود کو ذہنی مریض نہ بناکر اور خودکشی کا راستہ نہ اپناکر جو راستہ اپنایا ہے اس نے اس بڑھتے ہوئے مسئلہ پر سوچنے کے لئے سب کو مجبور کیا ہے۔ اس نے درخواست کے ذریعہ اس حساس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے اور والدین کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کے لئے مجبور کیا ہے۔ تبدیل ہوتے موجودہ سماجی حالات میں یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔