عالمی یوم ہندی پر خاص: کئی زبانوں کا سنگم ہے ’ہندی‘... مرنال پانڈے

گنگا کی طرح ہندی زبان بھی سبھی ہندی بیلٹ سے کئی چھوٹی چھوٹی ندیوں، نالوں اور پانی کے ساتھ کئی طرح کے مادوں کو بٹورتی ہوئی بہتی ہے۔ اس میں اردو، فارسی اور انگریزی زبان کی دھارائیں آ کر ملتی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مرنال پانڈے

عالمی یومِ ہندی پر حکومت نے باور کرایا ہے کہ ملک بھر میں درجہ 8 تک ہندی ایک لازمی سبجیکٹ کے طور پر پڑھائی جانی چاہیے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہندی کے تمام خیر خواہ دو باتیں صاف طور پر سمجھ لیں۔ ایک یہ کہ گنگا کی طرح ہندی کی دھارا بھی سبھی ہندی بیلٹ سے کئی دیگر چھوٹی چھوٹی ندیوں، نالوں، گھاٹوں سے کئی طرح کے حیاتیاتی مادوں کو بٹورتی ہوئی بہتی رہی ہے۔ اس میں لگاتار مختلف علاقوں کی زبانوں مثلاً اردو، فارسی یا انگریزی کی دھارائیں آ کر ملتی رہی ہیں۔ یہ باتیں ہندی کو آلودہ نہیں کرتیں بلکہ اسے خوشحال اور وسیع تر بناتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ’سرکار بہادر‘ بغیر سرکاری دباؤ بنائے ہندی کو پہلے غیر ہندی علاقے میں اپنے لیے ایک عام قبولیت کا ماحول بنائے، ورنہ جس قدر ہندی تشہیر کی حکومت کاری ہوگی اتنی ہی تلواریں ہندی کے خلاف کھنچ جائیں گی۔ پھر یہ تو انتخابی سال ہے، جنوب کے لیڈران اس پر اپنے سیاست کے تیر چھوڑنے سے ذرا بھی پرہیز نہیں کریں گے۔ ویسے بھی بی جے پی کہاں اپنی ساتھی پارٹیوں کو راشن پانی دے رہی ہے؟

یہ ماننے سے انکار نہیں کہ 11 ریاستوں میں پھیلی وسیع ہندی پٹی میں ہی نہیں فلم اور ٹی وی کے اثر سے پورے ہندوستان میں ہندی زبان پھیل رہی ہے۔ ہندی بیلٹ کے ووٹر اپنی زبان میں سیاست اور معاشی پالیسی سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہندی کے کئی علاقائی طرز بھی پردیسی لفظوں کو سمیٹتے ہوئے سامنے آ رہے ہیں۔ خاص طور سے علاقائی میڈیا میں۔ یہ حالت آج سے ڈیڑھ سو برس پہلے بھی موجود تھی جب بھارتیندو ہریش چندر نے اپنے ایک مضمون میں دو نہیں، 12 طرح کے ہندی زبان کا شمار کیا تھا، مثلاً سرکاری ہندی، انگریزی زدہ ہندی اور ریلوے کی ہندی۔ ولی دکنی جیسے شاعروں کی البیلی دکنی ہندی بھی 100 سے زائد برسوں سے پھل پھول رہی ہیں...

تیری بھنواں کوں دیکھ کے کیتے ہیں عاشقاں

ہے شاہ جس کے نام چڑھی ہے کمان آج

وہ ہندی، جس کی بابت بھارتیندو نے اعلان کیا تھا کہ... ہندی نئے چال میں ڈھلی، بنی جب کہ آگرہ کے فورٹ ولیم کالج کے بھاکھا منشیوں نے دیوناگری اسکرپٹ کی معرفت پیمانہ پر مبنی ہندی کو تحریری شکل میں ہندی بیلٹ والوں کے لیے پیش کرنے کی راہ کھول دی۔ 1860 کے آس پاس بھارتیندو، بال مکند گپت یا پرتاپ نارائن مشر جیسے شروعاتی رائٹرس نے لوچ دار ہندی کی تلاش کرتے ہوئے اپنے لیے ہندی کو چھانٹا تو اُسوالی کو، جس کو چٹیادھاری ویاکرناچاریہ یا کہ سنسکرت دانشور نہیں، عام لوگ بولتے تھے۔ اور جس کے ذائقہ میں بڑے اضلاع کی تمام پوربیا، پچھاہیں بولیوں کے علاوہ انگریز بہادر کی حکومتی اردو فارسی اور انگریزی کے لفظ بھی موجود تھے۔

یہی ہندی 19ویں صدی کے آخر تک (1854 کے ایجوکیشنل ڈسپیچ کی صلاح کی بنیاد پر) سرکاری اسکولوں کے نصاب میں کتابوں کے لیے استعمال ہو کر پبلشنگ کاروبار اور نصابی کتاب کے رائٹرس کی بہترین کمائی کا گارنٹی شدہ ذریعہ بنیں۔ آج پورے ہندوستان میں لازمی ہندی کی پیشکش کرنے والے جان لیں کہ بھارتیندو کے زمانے کی ہندی میں بھی فارسی کے چچا، چک، چہک جیسے لفظ تھے تو پرتگالی کے نیلام، میز، عربی کے سراہی، نظر، ایڈمنسٹریشن سے جڑے کئی انگریزی کی دیسی شکل لالٹین، اسپتال، کلٹر، کمشنر اور ملیشیا کے گودام جیسے لفظ بھی۔ یہی اصول اخباری صحافت کی تمام شکلوں پر بھی نافذ ہوتا ہے جو بقول راجندر ماتھر ریڈیمیڈ نہیں پیدا ہوتے، سماج کی ٹھونکا پیٹی سے ہی اپنی شکل حاصل کرتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں۔ سیاست، معاشی پالیسی، کھیل، صحت یا کہ سماجی موضوعات، ان سب پر اچھی دھاردار رپورٹنگ اور عمدہ ایڈیٹوریل لکھنے کے لیے وہ حاضر جوابی، الفاظ کی گگلی اور چوکے چھکے ضروری ہیں جو اکیڈمک پنڈتاؤپن اور سنسکرت سے دبی ہندی سے نہیں، عام فہم اور ملی جلی زبان سے ہی نمو پا سکتے ہیں۔

ہندی بولنے والوں کو کشش حاصل کرنی ہو تو ان کے لیے ہندی کی کمتری، خاتمے کے احساس اور حسد والی تہذیب سے ہندی کو آزاد کرنا پڑے گا۔ ہندی کا بہترین ادب پڑھ کر جلن کرنا، کسی اچھی ہندی تحریر کو انعام دیے جانے پر انتخابی عمل اور نامزدگی عمل میں خامی نکالنا، مصنف سے متعلق گمنام خبریں شائع کروانا، ہندی ڑائٹر کی رائلٹی مارنا، اور جسے اچھی رائلٹی مل رہی ہو اس رائٹر کو بلاجھجک نظام کا دلال کہنا اور گھٹیا تحریر و غیر سطحی پبلشنگ کو ہی ہندی کا مستقبل بنانا... یہ غلط کاری ہندی والے ہی کرتے آئے ہیں، باہر کے لوگ نہیں۔ اس کے بعد پھر ہم یہ امید کس طرح کر سکتے ہیں کہ قاری ہی نہیں، سرمایہ کار، ناشر یا مترجم ہم کو سنجیدگی سے لیں گے؟

ہندی کوئی پیسوں کا درخت نہیں جو ہم کو منھ مانگی دولت یا شہرت دے گی۔ ہم ہی اسے لے کر غلط سوچ بناتے رہے ہیں۔ ہندی میں لکھنا، اپنی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا واحد راستہ ہے۔ اسے ’ہندی کی خدمت‘ بتانا کیسا؟ شیکسپیئر نے کیا اس لیے لکھا کہ وہ انگریزی کی خدمت کرنا چاہتے تھے؟ ہندی چوراہے پر آئے گی تو سڑک چھاپ بنے گی ہی۔ اسے نہ ہم اقتدار کی مشینری بننے سے دور رکھ سکتے ہیں نہ ہی خاص طبقہ یا ذات تک محدود۔ سوشل میڈیا پر بھلے وہ ہم کو ضدی اور مشتعل لگتی ہو، اس کی نوجوان توانائی، تجربہ کی کوشش اور نقلی انکساری کو قبول نہ کرنا اسے جمہوری بناتا ہے۔ اس زبان کی بڑھتی وسعت آج ہندی بیلٹ کو ادب، فلم، سوشل میڈیا، تجارت، بازار ہر کہیں انتخاب کی جو آزادی دے رہی ہے، آئیے یکسر نئی پہچان بنا رہی ہندی زبان کا عالمی جشن منائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔