باذل عباسی: اردو کا ایک گمنام قلمکار… جمال عباس فہمی

اردو ادب میں ایسے قلمکار گزرے ہیں جن کی تخلیقی صلاحیتوں کو کچھ با اثر افراد نے استعمال کیا اور نام کمایا۔ ایسے ہی ایک استحصال شدہ با صلاحیت قلمکار باذل عباسی تھے۔

باذل عباسی
باذل عباسی
user

جمال عباس فہمی

'دکھ سہیں بی فاختہ کوےّ انڈے کھائیں'۔ یہ مثال ہے تو بڑی بھونڈی لیکن اردو ادب کے کچھ افراد کے اوپر پوری طرح صادق آتی ہے۔ اردو ادب میں ایسے قلمکار گزرے ہیں جن کی تخلیقی صلاحیتوں کو کچھ با اثر افراد نے استعمال کیا اور نام کمایا۔ ایسے ہی ایک استحصال شدہ با صلاحیت قلمکار باذل عباسی تھے۔ جن کی نثری کاوشیں اردو ادب کی کچھ بڑی ہستیوں کے نامہ اعمال میں درج ہوئیں۔

باذل عباسی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں ریسرچ ایسو سی ایٹ کی حیثیت سے بھی وابستہ تھے۔ شعبے کا 'وضاحتی کتابیات' کا کام چھ جلدوں میں جو سامنے آیا وہ سب ان کی قلمی اور ذہنی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ بیشتر جلدیں ترقی اردو بیورو نے شائع کیں اور ایک حصہ دہلی اردو اکیڈمی نے شائع کیا۔ لیکن ان تمام جلدوں پر باذل عباسی کا نہیں بلکہ پروجیکٹ ڈائریکٹر اور ایک ادیب کا نام جلی حروف میں درج ہے۔ بے چارے باذل عباسی کا نام ان ذخیم جلدوں کے اندرونی صفحہ پر 'استحقاق شکریہ' کے ساتھ درج ہے۔ باذل عباسی ایک نثر نگار، صحافی اور صاحب طرز شاعر تھے۔ ان کی نثری کاوشوں کا تو جو حشر ہوا وہ تو ہوا لیکن شعری سرمایہ ان کے چھوٹے بھائی عاجل عباسی کی کوششوں کے سبب منظر عام پر آسکا۔ 'چشم عزا' کے نام سے ان کے مذہبی کلام کا مجموعہ اور غزلوں، نظموں قطعات اور رباعیات کا مجموعہ 'رفعت سخن' کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ باذل عباسی کی علمی لیاقت اور شاعرانہ مہارت کا ذکر کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر ان کے تعلیمی اور قلمی سفر کی بھی جان کاری حاصل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔


باذل عباسی کا تعلق ایک نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ ادبی خاندان سے تھا۔ ان کا خاندان حاذق حکیموں کا خاندان کہلاتا ہے۔ باذل عباسی کے مورث اعلیٰ ابو الفضل کے والد شیخ مبارک مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں ایران سے ہندستان آئے تھے۔ انہوں نے اعظم گڑھ کے ایک دیہات فیض اللہ پور میں سکونت اختیار کی۔ ابو الفضل کی پیدائش فیض اللہ پور ہی میں ہوئی۔ ابو الفضل کے پر پوتے شاہ فیض باد شاہ جہانگیر کی فوج میں افسر تھے۔ بادشاہ نے انہیں 35 گاؤں کی جاگیر دی تھی۔ اس خاندان میں کئی نامور حاذق حکیم گزرے جس کی وجہ سے یہ خاندان حکیموں کے خاندان کے طور پر مشہور ہوا۔ باذل عباسی کے پردادا حکیم محمد امین بادشاہ اودھ واجد علی شاہ کے شاہی حکیم کے شاگرد تھے۔ باذل عباسی کے والد محمد ہاشم بھی حکیم تھے۔ دادا مظہر حسین بھی اپنے وقت کے معروف حکیم تھے، باذل عباسی 1948میں پیدا ہوئے۔

باذل عباسی کے چھ بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ لیکن اب ایک بھائی اور ایک بہن کو چھوڑ کر باذل عباسی سمیت سب کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان کے تین بھائی آرکیٹکٹ تھے۔ باذل عباسی کے دو بھائی عاقل اور فاضل عباسی بھی شاعری کرتے تھے، باذل عباسی کے سب سے چھوٹے بھائی عاجل عباسی حیات ہیں۔ وہ اورنگ آباد میں آرکیٹکٹ ہیں۔ باذل عباسی نے اعظم گڑھ کے شبلی نیشنل کالج سے ہائی اسکول کیا۔ 1963 میں وہ اپنے ماموں ظہور حیدر کے پاس حیدر آباد آگئے تھے۔ ظہور حیدر حیدر آباد میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ باذل عباسی نے نظام کالج سے گریجویشن کیا اور آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ شعر گوئی کا سلسلہ آٹھویں جماعت سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ 1976 تک حیدر آباد میں قیام کا دور باذل عباسی کی شاعرانہ صلاحیتوں کے نکھار کا دور رہا۔


انہوں نے معروف رثائی شاعر علامہ نجم آفندی کی شاگردی اختیار کی۔ کچھ عرصہ کے بعد علامہ نجم آفندی نے انہیں اپنے چہیتے شاگرد عادل نجمی کے سپرد کر دیا۔ حیدر آباد میں قیام تک باذل عباسی عادل نجمی سے ہی مشورہ سخن کرتے رہے۔ حیدر آباد میں ان کے ہم عصروں میں معروف نظم گو علی ظہیر، علی جاوید مقصود، مترجم، افسانہ نگار و شاعر بشارت علی، تقی عسکری ولا، شائق حیدر آبادی، اقبال عابدی، غیاث متین، علی الدین نوید اور مظہر مہدی جیسے قلمکار تھے۔ معروف محقق، مترجم، مرتب، ادیب اور شاعر تقی عابدی ان کے جونیئر تھے۔ باذل عباسی نے قصیدہ، منقبت، سلام، مرثیہ اور نوحے کے ساتھ ساتھ غزل، نظم، قطعہ، رباعی اور دوہے جیسی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ان کی پسندیدہ صنف غزل اور نظم تھی۔ باذل عباسی نے شخصی مرثیے بھی کہے۔ جدید شاعر قاضی سلیم اور سلیمان اریب سے وہ بہت متاثر تھے ان کے انتقال پر انہوں نے انہیں منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔

1978 سے 1988 تک دہلی میں قیام کا دور باذل عباسی کی قلمی لیاقت، ذہنی صلاحیت اور شرافت کے استحصال کا دور رہا۔ دہلی میں باذل عباسی نے سرکاری، غیر سرکاری نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں کام کیا۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، ترقی اردو بیورو، این سی ای آر ٹی اور کونسل فار سوشل ڈیولپمنٹ اینڈ ڈولپنگ سوسائٹیز سے وابستہ رہے اور تقریباً ہر جگہ انہیں استحصال کا شکار بننا پڑا۔


جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو سے باذل عباسی 1979 سے 1986 تک ریسرچ ایسو سی ایٹ کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ شعبہ کا 'وضاحتی کتابیات' کا تمام تر کام ان کے ذمہ تھا۔ اس دوران انہوں نے چھ جلدیں تیار کیں۔ 1979 سے 1982 تک کا کام ترقی اردو بیورو نے شائع کیا اور کچھ حصہ دہلی اردو اکیڈمی نے شائع کیا۔ لیکن ان تمام ذخیم جلدوں پر باذل عباسی نہیں بلکہ پروجیکٹ ڈائریکٹر پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر مظفر حنفی کے نام جلی حروف میں درج ہیں۔ اور محنت شاقہ کے ساتھ تمام کام انجام دینے والے بے چارے بازل عباسی کا نام اندر کے ایک صفحہ پر استحقاق شکریہ کے ساتھ درج ہے۔ کچھ عرصہ باذل عباسی دہلی سے شائع ہونے والے اردو رو زنامہ 'ان دنوں' سے بھی وابستہ رہے۔ قلمی اور ذہنی استحصال کی وجہ سے باذل عباسی کی ذہنی صلاحتیں کافی متاثر ہوئیں۔ دلبرداشتہ ہو کر انہوں نے دہلی کو الوداع کہہ دیا اور بنارس میں سکونت پذیر ہوگئے۔ لیکن 'چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ کافر لگی ہوئی' کے مصداق بنارس میں بھی وہ خود کو ادب، تحقیق، تصنیف اور تدوین سے دور نہ رکھ سکے۔ اور 'آدھو نک بھاشا سنگھ' سے بحیثیت ڈائریکٹر منسلک رہے۔

جہاں تک آنجمہانی پروفیسر گوپی چند نارنگ کا تعلق ہے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا معاملہ اردو قلمکاروں کے ساتھ 'ہمارے ساتھ یا ہمارے مخالف' والا تھا۔ جو ان کے 'خیمہ عاطفت' میں پناہ لے لیتا تھا وہ ان کے انتقامی عتاب سے امان پاجاتا تھا ورنہ ان کے اثر و رسوخ کی بدولت اس کا حقہ پانی بند ہو جاتا تھا اور وہ ٹاٹ باہر ہو جاتا تھا۔ 'بھگوان ان کی آتما کو شانتی دے' پروفیسر گوپی چند نارنگ کے اردو اداروں پر تسلط اور اجارہ داری کے بہت سے واقعات اردو حلقوں میں مشہور ہیں۔ بہت سے قابل، لائق اور با صلاحیت ادیب اور قلمکار ان کے عتاب کا شکار ہوئے۔ اس کی زندہ مثال کے طور پر پروفیسر شارب ردولوی موجود ہیں۔ پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے ادبی استحصال اور پروفیسر گوپی چند نارنگ کے ان کے ساتھ سلوک کا ذکر اپنی سوانح 'نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم' میں تفصیل سے کیا ہے۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کئی تخلیقات باذل عباسی کی قلمی محنت و مشقت کا نتیجہ ہیں۔


باذل عباسی فطری طور پر شاعر تھے۔ زبان و بیان پر زبردست قدرت رکھتے تھے۔ ادق مضامین کو بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ باندھنے کا ہنر جانتے تھے۔ الفاظ تو جیسے ان کے قلم کی غلامی میں رہتے تھے۔ تب ہی تو انہوں نے کہا۔

کہیں سے آتے ہیں الفاظ ہاتھ باندھے ہوئے

وہیں پہ ڈھل گئے نغمے جہاں قلم رکھا

…..

باذل غزل سرا ہے کہیں اے جمال شوق

حسن بیان و طرز بیاں دیکھتے چلیں

…..

قلم کی خشت نے لہجوں کے گل کھلائے ہیں

کہ اک جہاں مرے حرف و بیاں میں رہتا ہے

…..

جو کوئی سایہ وہم و گماں میں رہتا ہے

یقیں کی دھوپ میں شک کے مکاں میں رہتا ہے

…..

کچھ لوگوں نے جس لفظ کا مفہوم نہ سمجھا

اس لفظ کی آواز پہ میں چونک پڑا تھا

…..

جھکی جہاں بھی جبیں میری شوق سجدہ میں

یہ اتفاق کہ تیرا ہی نقش پا نکلا

…..

پھر ایک بار شہادت کا مرحلہ آیا

پھر ایک بار کیا حق نے شہسوار مجھے

…..

گلوئے حق پہ ہے پھر تیغ آزما دنیا

پھر ایک بار مری تشنگی پکار مجھے

…..

حرب اور ضرب کے آداب سکھاؤ نہ ہمیں

جانتے ہیں سر مقتل ہمیں کیا کرنا ہے

…..

مقتل سجے ہیں لاشوں سے اور بولتا ہے رن

خیموں سے اٹھ رہا ہے دھواں دیکھتے چلیں

باذل عباسی نے سلام، منقبتیں، مرثیے، نوحے اور قصیدے بھی نظم کئے۔

مظلومی حسین نے کیا کیا بدل دیا

اک دن میں کائنات کا نقشہ بدل دیا

…..

مقتل میں مل گئی تھی جوانی حبیب کو

جوش جہاد حق نے سراپا بدل دیا

…..

پہنچیں گے تا بہ عرش یہ نالے زمین کے

بزم عزائے شاہ ابھی رہگزر میں ہے


اردو ادب کا یہ خاموش سپاہی بنارس میں 2012 میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ باذل عباسی ایسے قلمکار تھے جنہیں نہ شہرت کی ہوس تھی نہ انعام و اکرام کی آرزو۔ یہ تو ایک باذل عباسی کا ذکر ہے۔ اردو ادب میں نہ معلوم کتنی فاختائیں ہیں جن کے انڈے کوےّ کھا رہے ہیں اور شہرت کی بلندیوں پر اترا اتر کر پرواز کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */