کوسووو کی مساجد میں خواتین مبلغین کا بڑھتا ہوا کردار

زیادہ تر مسلم ممالک میں یہی بہتر قرار دیا جاتا ہے کہ خواتین گھر پر ہی نماز ادا کریں لیکن کوسووو میں عثمانی دور حکومت کی وہ روایت دوبارہ زندہ ہو رہی ہے، جس میں مساجد میں خواتین کا کرداربھی نمایاں تھا۔

نماز ادا کرتیں خواتین
نماز ادا کرتیں خواتین
user

ڈی. ڈبلیو

اجیمہ سوگوییوو ایک معلمہ ہیں اور کوسوو کے شمالی شہر میتروویٹسا کی ایک مسجد میں موجود ہیں اور ان کے ارد گرد کئی خواتین بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہ خواتین قرآن کی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور روزمرہ کی زندگی کے حوالے سے انہیں حقوق و فرائض کے بارے میں آگاہی بھی فراہم کی جاتی ہے۔

ایک عشرہ پہلے تک اس ملک میں خواتین کا اس طرح مسجد میں آنا اور درس و تدریس میں حصہ لینا ناقابل یقین تھا۔ اجیمہ ان ایک سو مبلغین میں سے ایک ہیں، جو یورپ کے اس ملک میں ماضی کی اس اہم روایت کو دوبارہ زندہ کر رہی ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مفقود ہو کر رہ گئی تھی۔ اس مہم کا مقصد مساجد میں خواتین کو مذہبی تربیت فراہم کرنا ہے۔

ان مساجد میں خواتین کو مردوں سے الگ کمرے فراہم کر دیے جاتے ہیں۔ کوسووو حکومت اس کوشش کے تحت اسلام کے صنفی مساوات کے حوالے سے نظریے کو اجاگر کرنا چاہتی ہے کیوںکہ مغربی دنیا میں ابھی تک یہی سمجھا جاتا ہے کہ اسلام کا خواتین کے حوالے سے رویہ کسی حد تک ’جابرانہ‘ ہے۔

مسلم ممالک میں اس طرح کی تعلیم خواتین ہی دوسری خواتین کو فراہم کرتی ہیں اور یہ تعلیم مساجد کی بجائے خصوصی مدارس، گھروں یا پھر ہالز میں دی جاتی ہے۔ کئی بہت ہی قدامت پسند مسلم ممالک میں خواتین کو مذہبی وجوہات کی بجائے سماجی طور پر مساجد سے دور رکھا جاتا ہے۔

پرسٹینا کے اسلامک اسٹڈیز سینٹر میں انگلش کی پروفیسر بیسہ اسماعیلی کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران کوسووو کی مساجد میں نماز ادا کرنے کے لیے آنے والی خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، ’’ماضی میں نہ صرف خواتین کے مساجد میں آنے پر پابندی تھی بلکہ اسلام کے لیے ان کی کوششوں اور قربانیوں کا بھی اعتراف نہیں کیا جاتا تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ ہم اس طرح کے غلط تصورات اور رسومات کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

کوسووو ایک پدری سماج ہے لیکن اس کا سیکولر تشخص بھی کافی پرانا ہے۔ اس ملک کی مذہبی شناخت کمیونسٹ دور میں بہت ہی کمزور ہو گئی تھی۔ ملک کی زیادہ تر نسل البانوی اکثریت کی ہے۔مسلمانوں کا مذہبی جذبہ کمیونزم کے زوال کے بعد سے بڑھ رہا ہے۔ سن 2018 میں کوسووو نے سربیا سے آزادی حاصل کی تھی اور حالیہ چند برسوں کے دوران اس ملک میں مذہب سے متاثرہ شدت پسندی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

2012 کے بعد سے تقریباً 3 سو کوسووو کے شہری شام اور عراق میں سرگرم جہادی تنظیم داعش میں شرکت کر چکے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی تعداد ان بچوں اور خواتین کی تھی۔ ان میں سے اکثر خواتین اور بچوں کو زبردستی لے جایا گیا تھا۔ شام اور عراق میں ابھی بھی اس ملک کے تقریباً ایک سو اسی شہری سرگرم ہیں۔

تاہم کوسووو حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے کسی ایک شہری نے بھی داعش میں شمولیت اختیار نہیں کی اور نہ یہ کہ ملک میں خواتین مبلغین کے ذریعے خواتین کو با اختیار بنایا جا رہا ہے۔ خاتون پروفیسر بیسہ اسماعیلی کا کہنا تھا، ’’اگر اسلام کی اچھے طریقے سے تشریح کی جائے تو نیشنلزم کی انتہا پسندی ختم ہو جاتی ہے۔‘‘

اس ملک میں متعدد خواتین مبلغین کے لئے مالی امداد ترکی کا ادارہ برائے مذہبی امور یا پھر وہاں کی مذہبی تنظیم ’دیانت‘ فراہم کر رہی ہے۔ ترک حکومت کوسووو کی اسلامک کمیونٹی (بی آئی کے) نامی ادارے کو بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔

’بی آئی کے‘ ادارے کے سکریٹری جنرل رسول رجبی کہتے ہیں کہ اب ملک بھر کی تقریبا 8 سو مساجد میں خواتین مبلغین سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں اور اس کا مقصد معاشرے میں خواتین کے کردار کو بڑھانا اور ان کی زندگی میں جدت لانا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’معلمہ کا کردار پورے معاشرے کے لیے اچھا ہے۔‘‘

رسول رجبی کے مطابق ان خواتین مبلغین کی مدد سے گھروں میں ہونے والے جنسی تشدد میں کمی لائی گئی ہے۔ اسی طرح یہ ان خواتین کو بھی مدد فراہم کرتی ہیں، جنہیں جنگ کے دوران جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح یہ خواتین کو اس بات پر بھی آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اسکولوں میں بھیجیں اور انتخابات میں اپنا ووٹ کا حق بھی استعمال کریں۔

گزشتہ دس برسوں میں ان کے لیے بنائے گئے تین اسلامی اسکولوں کی تقریباً 11 سو لڑکیاں گریجویٹ کر چکی ہیں جبکہ 3 سو خواتین اسلامک اسٹڈیز سینٹر سے ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔

ایک 21 سالہ طالبہ کا خواتین مبلغین کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’بہت سے موضوعات ایسے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں کسی امام سے گفتگو کرنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM