کون پاکستانی انتخابات میں تاخیر چاہتا ہے؟

پاکستان میں عام انتخابات کے لئے 25 جولائی کی تاریخ طے ہے لیکن انتخابات پر تاخیر کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ کون سی جماعت چاہتی ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں اور کس کی خواہش ہے کہ انہیں ملتوی کر دیا جائے؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

پاکستان کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی بروقت انتخابات کے لیے سنجیدہ دکھائی دے رہی ہیں لیکن تحریک انصاف اور بلوچستان کی صوبائی حکومت واضح الفاظ میں انتخابات میں التوا کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی کراچی کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم بانی الطاف حسین نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بھی اشاروں کنایوں میں بائیکاٹ کی باتیں کر رہے ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کا بہادر آباد گروپ بھی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن سے رجوع کر چکا ہے۔ مبصرین کے مطابق گویا ان کا بھی آخری راستہ بائیکاٹ ہی دکھائی دیتا ہے۔

ایم کیو ایم کی کمزور سیاسی پوزیشن سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے پیپلزپارٹی سرگرم ہے لیکن مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی نے سن 2013 کے بعد سے جو انتظامی فیصلے کیے ہیں ان سے کراچی کے رہنے والوں کے ذہنوں میں منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔

سینیئر صحافی مظہر عباس نے ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انتخابات کے لیے ایم کیو ایم کی پوزیشن بہت کمزور ہے، ’’ کراچی کی نمائندگی کرنے والی یہ جماعت اندرونی اور بیرون انتشار کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار بائیکاٹ کا اشارہ دے رہے ہیں۔ ایسی صورت میں پیپلز پارٹی، مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل اور ایم کیو ایم کے بطن سے جنم لینے والی پی ایس پی کو فائدہ ہوسکتا ہے لیکن اگر ایم کیو ایم کے دھڑوں نے بائیکاٹ کیا تو ووٹرز ٹرن آؤٹ بہت کم ہو گا‘‘۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی آصفہ کے علاوہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ کے سرکردہ رہنما مشاہد اللہ خان اور ان کے بیٹے بھی کراچی سے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کراچی میں صورت حال بہت گنجلک ہو گی اور کوئی جماعت دوسرے کی مدد کے بغیر مستحکم پوزیشن میں نہیں ہو گی۔

مبصرین کے خیال میں پیپلز پارٹی اگر کامیابی حاصل کر بھی لے تو حکومت بنانے کے لیے اسے اتحادیوں کی ضرورت ہو گی۔ فنکشنل لیگ اور سندھی قوم پرست جماعتیں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی صورت میں اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کریں گی جبکہ تحریک انصاف کا فوکس کراچی سے زیادہ پنجاب میں کامیابی حاصل کرنے کی طرف دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے جو نشستیں حاصل کریں گے اسٹبلشمنٹ انہیں تحریک انصاف کے ساتھ ملانے کے لیے سرتوڑ کوشش کرے گی۔

ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں کہ کراچی میں میچ فکس ہوگا اگر تحفظات دور نہیں کیے گئے تو ایم کیو ایم بائیکاٹ کر سکتی ہے۔

عام مشاہدہ ہے کہ پاکستان کے انتخابات میں کراچی ملک کا وہ واحد حصہ ہے جہاں آزاد امیداوار میدان میں آنے کی ہمت ہی نہیں کرتے ہیں۔ بی بی سی سے وابستہ معروف تجزیہ کار وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ اگر ایم کیو ایم بائیکاٹ کر دے تو پیپلز پارٹی اور آزاد امیدواروں کو فائدہ ہوگا اور اگر بائیکاٹ نہیں ہوتا تو ایم کیو ایم ہی کراچی سے انتخاب جیتنے والی بڑی جماعت ہوگی البتہ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر آسکتی ہے۔

وسعت اللہ خان کے مطابق،’’ سن 1988 کے بعد شہر میں پہلی بار اوپن انتخابات ہونے جارہے ہیں ورنہ ون پارٹی شو ہوتا تھا لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ دو نسلیں جوان ہوچکی ہیں اور نوجوان نسل تشدد اور جبر کی سیاست کو مسترد کر چکے ہیں اور اب ووٹ کارکردگی کی بنیاد پر ہی مانگا اور دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کی شہری حکومت کی کارکردگی قابل ذکر نہیں ہے۔‘‘

وزیر اعلٰی ہاؤس میں افطار کے موقع پر سابق صدر آصف زرداری نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ وہ خود بھی نواب شاہ سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ کراچی کے سیاسی منظر نامہ پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کراچی سے بھی نشستیں حاصل کرے گی۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کی قرار دار اور وزیر اعلٰی خیبر پختون خوا کے خط سے واضح تاثر یہی مل رہا ہے کہ کچھ قوتیں بروقت انتخابات نہیں چاہتیں مگر پیپلز پارٹی کسی قیمت پر انتخابات ملتوی ہونے نہیں دے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */