طالبان کے بڑھتے دبدبے کے سبب افغان فوجیوں میں کھلبلی، 1000 سے زائد تاجکستان فرار

افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے اعلان، طالبان کے متعدد شہروں پر مسلسل قبضے اور جھڑپوں کے خوف سے افغان سیکورٹی اہلکار میں کھلبلی مچ گئی ہے اور فوجی بڑی تعداد میں ملک سے فرار ہو رہے ہیں

افغان طالبان / Getty Images
افغان طالبان / Getty Images
user

یو این آئی

کابل: افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے اعلان، طالبان کے متعدد شہروں پر مسلسل قبضے اور جھڑپوں کے خوف سے افغان سیکورٹی اہلکار میں کھلبلی مچ گئی ہے اور بڑی تعداد میں فوجی فرار ہو کر تاجکستان پہنچ رہے ہیں۔ تازہ واقعہ میں ’بدخشاں بٹالین‘ سے تعلق رکھنے والے فوجی ملک سے فرار ہو گئے تاہم بٹالین کے سپاہی فرار کی وجہ اضافی کمک کی عدم دستیابی قرار دیتے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ملک کے شمالی سرحدی علاقوں میں لگاتار دوسرے دن طالبان نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا جس کے بعد مقامی افواج کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے اور وہ مزید بحرانی صورتحال سے دو چار ہو گئے۔ تاجکستان فرار ہونے والے اہلکار جس بدخشاں بٹالین سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے ایک سپاہی عبدالبشیر نے کہا کہ وہ ہتھیار ڈالنا نہیں چاہتے تھے، انہوں نے کمک بھیجنے کی درخواست کی تھی لیکن ان کے مطالبات کو نظر انداز کر دیا گیا۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ طالبان ایک کے بعد ایک علاقے پر قبضہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور طالبان سے تازہ جھڑپوں کے بعد ایک ہزار سے زائد افغان سیکیورٹی فورسز کے اہلکار پڑوسی ملک تاجکستان فرار ہو گئے ہیں۔


تاجکستان کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے کہا کہ طالبان سے جھڑپوں کے بعد ایک ہزار 37 افغان فوجی اپنی جان بچا کر فرار ہوتے ہوئے سابق سوویت سرزمین پر پہنچ چکے ہیں۔ تاجکستان کے محکمہ اطلاعات کی جانب سے شائع بیان کے مطابق اچھے پڑوسیوں کے اصول اور افغانستان کے اندرونی امور میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے افغان فوج کے اہلکاروں کو تاجکستان کی حدود میں داخلے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

ابتدائی جھڑپوں کے بعد ہی افغانستان سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تاجکستان میں داخل ہو گئے تھے جہاں طالبان نے دونوں ممالک کے درمیان مزید اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

ادھر افغان حکومت نے شمالی علاقوں میں جوابی کارروائی کا ابھی اشارہ نہیں دیا ہے اور سیکیورٹی کے مشیر حمد اللہ موہب نے روس کی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں کارروائی شروع کرنے کے حوالے سے غور کیا جا رہا ہے۔

طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے پیش نظر کچھ اڈوں پر اہلکاروں نے کوئی گولی چلائے بغیر یا کسی مزاحمت کرنے کے بجائے فوراً ہتھیار ڈال دیے جس سے طالبان کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں وہیں اسلحے اور سامان کی رسد کے راستے محدود ہونے کے پیش نظر مقامی سیکیورٹی فورسز کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔


کابل میں ایک تجزیہ نگار عطا نوری نے کہا کہ افغانستان فورسز کا مورال گر چکا ہے، طالبان نے جن اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے ان میں وہ شش و پنج کا شکار ہیں کیونکہ طالبان ان علاقوں میں قبائلی عمائدین کو سپاہیوں اور فوجیوں کے پاس بھیج رہے ہیں تاکہ انہیں ہتھیار ڈالنے پر راضی کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ افغان حکومت کے لیے ایمرجنسی صورتحال ہے اور انہیں جلد از جلد اپنی جوابی کارروائیوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکہ کی جانب سے بگرام ایئر بیس خالی کیے جانے کے بعد طالبان نے ملک کے شمالی حصوں میں اپنی کارروائی تیز تر کر دی ہے اور صوبہ بدخشاں اور تخر میں اکثر علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور سرکاری فورسز کے قبضے میں بمشکل دارالحکومت ہی باقی رہ گئے ہیں۔

طالبان کی جانب سے بڑے پیمانے پر کارروائیوں سے طالبان پر نفسیاتی دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور عوام بھی مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ صوبہ ہلمند کے رہائشی محمد بارکزئی نے کہا کہ ہم اس جنگ سے بہت تھک چکے ہیں، آج کم از کم درست چیز ہو رہی ہے اور ایک فریق کو مکمل کنٹرول حاصل کر لینا چاہیے۔

واضح رہے کہ امریکہ نے رواں سال 11 ستمبر کو افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کا اعلان کر رکھا ہے اور اسی سلسلے میں جمعہ کو امریکہ نے افغانستان میں اپنے سب سے بڑے اور اہم اڈے 'بگرام ایئر بیس' کو افغان سیکیورٹی فورسز کے سپرد کر دیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔