ندائے حق: چین میں پاکستان کی سفارتی شکست...اسد مرزا

’’عمران خان کو چینی وزیر کے ساتھ ورچوئل میٹنگ میں شرکت کرنا پڑی، جبکہ وہ خود بیجنگ میں موجود تھے اور انہیں چینی حکومت کی جانب سے کے نیا قرضہ دینے کے لیے کوئی یقین دہانی بھی حاصل نہیں ہوئی‘‘

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

اسد مرزا

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان گزشتہ ہفتے چین کے چار روزہ دورے پر گئے تھے۔ بظاہر اس دورے کا مقصد بیجنگ میں XXIV سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت بتایاگیا تھا۔ لیکن عمران خان کے ساتھ ایک بہت بڑا وفد تھا جس میں پاکستان کے وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، وزیر منصوبہ بندی، وزیر اطلاعات، قومی سلامتی کے مشیر، کامرس کے مشیر اور چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پر معاون خصوصی شامل تھے۔

چین کا غیر سفارتی اقدام

تاہم، پاکستانی وزیر اعظم اور ان کی ٹیم اس وقت ششدر رہ گئی جب انہیں بتایا گیا کہ اہم میٹنگ میں سے ایک ورچوئل موڈ میں ہو گی، حالانکہ پاکستانی وفد بیجنگ میں موجود تھا۔

چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن (این ڈی آر سی) کے چیئرمین اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے وائس چیئرمین ہی لائفنگ سے ملاقات ورچوئل طور پر ہوئی نہ کہ میز پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ کر۔ درحقیقت یہ چین کا مکمل طور پر ایک غیر سفارتی قدم تھا اور شاید اس نے پاکستان اور اس کی قیادت کو اس کی جگہ دکھانے کے لیے اٹھایا تھا۔کیونکہ عملی طور پر جب کسی بھی ملک کا وزیر اعظم یا صدر کسی دوسرے ملک جاتا ہے تو اس کے پروگرام کے تحت ہونے والے چھوٹی سے چھوٹی ملاقات کی ساری چیزیں پہلے سے طے شدہ ہوتی ہیں جن میں ترمیم بہت کم کی جاتی ہے اور اگر کی بھی جاتی ہے تو اس طرح سے نہیں کی جاتی ہے کہ آپ مہمان کے ساتھ اپنے دفتر یا گھر میں نہ مل کر اس سے ذاتی طور پر ملنے سے بھی گریز کریں اور سفارتی حلقوں میں ایسی نظیر بہت کم نظر آتی ہے۔


عمران خان کا دورہ چین ایک ایسے وقت ہوا ہے جب پاکستان اپنے آپ کومعاشی مسائل کی دلدل میں پھنستا ہوا پا رہا ہے۔ ایک طرف تو پاکستان کی معیشت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور دوسری طرف ملک کے اندر خاص طور پر شورش زدہ بلوچستان کے علاقے اور افغان سرحد پر سکیورٹی کی صورتحال نے عمران خان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

پاکستان کی معاشی مشکلات

پاکستان اس وقت مہنگائی اور غیر ملکی امداد نہ ملنے کی وجہ سے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ معاشی مشکلات کو کم کر نے کے لیے عمران خان نے چین سے 5 بلین ڈالر کے قرض کی درخواست کی ہے۔

دیگر رپورٹس میں کہا جارہا ہے کہ پاکستان چین سے 5 بلین ڈالر اور روس اور قازقستان سے 1 بلین ڈالر قرضے کا طالب ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کے معطل شدہ قرضہ پروگرام کو بحال کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔

سی پیک (CPEC)

CPEC منصوبہ جس کی شروعات 2013میں کی گئی تھی، وہ چین کے شمال مغربی سنکیانگ ایغور خود مختار علاقے اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ کو جوڑتا ہے، جو 3,000 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے اور کئی نئے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بھی اس میں شامل ہیں۔ بھارت نے بارہا چین سے CPEC پر احتجاج کیا ہے کیونکہ یہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (PoK) میں بھی زیر تعمیر ہے۔

پچھلے سال، امریکہ میں قائم بین الاقوامی ترقی کی تحقیقی لیب ایڈ ڈیٹا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ CPEC کے تحت چینی ترقیاتی فنانسنگ کا ایک بڑا حصہ قرضوں پر مشتمل ہے جو گرانٹس کے برعکس موجودہ تجارتی مارکیٹ کی شرح سود پر دیے گئے ہیں، جو کہ دو طرفہ تعلقات کے لیے ایک معمول ہے۔


پاکستانی روزنامہ ڈان نے اس سے قبل اس رپورٹ کے اقتباسات چھاپے تھے، جس کے مطابق پاکستان کو تمام چینی ترقیاتی مالیات کا تقریباً نصف 'برآمد خریداروں کے کریڈٹ' کی شکل میں ملا تھا اور اسے پاکستان نے چینی عمل درآمد کرنے والے شراکت داروں کو ادائیگی کرنے اور آلات کی خریداری کے لیے استعمال کیا تھا۔

گزشتہ سال ستمبر میں اپنے اداریے میں ڈان نے تبصرہ کیا تھا کہ انفراسٹرکچر اسکیموں کے لیے چینی فنانسنگ کی نوعیت کے بارے میں 2015 سے پاکستان میں چلائے جانے والے پروجیکٹس کے لیے زیادہ شفافیت کی ضرورت ہے۔ اور CPEC کے ساتھ تجارت اور تعاون کو بڑھانے پر زور دیا ہے۔

2015 میں شروع کیا گیا، CPEC چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا اہم منصوبہ ہے۔ جس کے تحت چین سے توقع تھی کہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری آئے گی، جس سے پاکستان کے لوگوں کے لیے روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہوں گے۔ تاہم، عمران خان کی حکومت نے قومی احتساب بیورو نیب کے خوف کی وجہ سے سنگین معاشی صورتحال اور بیوروکریسی کے عدم تعاون کی وجہ سے CPEC کے منصوبوں کے تعطل کا مشاہدہ کیا ہے۔

دوسری جانب CPEC کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اب تک جو معلومات عوامی طور پر مہیا کرائی گئی ہیں ان کے مطابق CPEC نے صرف سات ہزار پاکستانیوں کو روزگار مل سکے گا جب کہ دوسری جانب اسی ہزار چینی شہری اس میں روزگار پا سکیں گے اور انھیں پاکستانیوں سے زیادہ سہولیات حاصل ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر چین CPEC کے ذریعے پاکستان کے وسائل اور بنیادی ڈھانچے کو اپنی تجارت کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں کچھ غیر مستند روپورٹس سامنے آئی ہیں جن کے مطابق پاکستان کے سندھ صوبے میں ٹکرا پار کے علاقے میں چینی ماہرین نے کوئلے کے بڑے ذخائر کا پتہ لگا یا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کوئلے کو CPEC میں شامل مختلف چینی کمپنیاں کوئلے کی کان کنی کریں گی اور یہ کوئلہ ان چینی کمپنیوں کو فروخت کیا جائے گا جو کہ پاکستان کے سندھ اور بلوچستان کے صوبوں میں بجلی پیدا کرنے والے مختلف منصوبوں کی تعمیر کررہے ہیں۔یعنی کہ جو کوئلہ پاکستان میں موجود ہے اور جو بجلی پاکستان میں تیار ہوگی اس کا فائدہ پاکستانی عوام کو نہیں بلکہ چینی کمپنیوں اور چینی حکومت کو ملے گا۔


ہند-پاک

اپنی ملاقاتوں کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے جموں و کشمیر میں مبینہ بھارتی مظالم پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ بھارت میں اقلیتوں پر ظلم علاقائی امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں عسکریت پسندی ،علاقائی استحکام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے بھارت کے جارحانہ رویے اور مروجہ ہندوتوا نظریے کو علاقائی امن کے لیے خطرہ اور خطے کے دیرپا عدم استحکام کی وجہ قرار دیا۔خان کا یہ تبصرہ بیجنگ میں چین کے معروف تھنک ٹینکس، یونیورسٹیوں اور پاکستان اسٹڈی سینٹر کے سربراہان اور نمائندوں کے ساتھ ایک خصوصی اجلاس میں آیا۔

افغانستان کے حوالے سے دونوں رہنماؤں نے تسلیم کیا کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان خطے میں اقتصادی ترقی اور رابطوں کو فروغ دے گا اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ انسانی تباہی سے بچنے کے لیے افغان عوام کی فوری مدد کرے۔

دورے کے دوران، پاکستان نے 60 بلین ڈالر کے CPEC-II یعنی CPEC کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے لیے چین کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر بھی دستخط کیے۔ عمران خان نے CPEC کے تحت مختلف متنازعہ منصوبوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں ممالک کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہیں اور عوام کو ٹھوس فوائد پہنچا رہے ہیں۔ یہ CPEC کے بارے میں ان کے پہلے خیالات کے برعکس ہے جوکہ اقتدار میں آنے سے پہلے CPEC کی خفیہ نوعیت اوراس کی سرمایہ کاری پر تنقید کرتے نظر آتے تھے۔

بیجنگ میں اپنے بیانات میں خان نے چین کے صوبے سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں اور چینی حکام کی طرف سے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ گزشتہ سال ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت پاکستان سنکیانگ میں چینی پالیسی کو اچھی طرح سمجھتی ہے جو کہ اس کے عوام کی بہتری کے لیے ہے اور وہ اپنی سرحدوں یعنی کشمیر کی صورتحال پر زیادہ فکر مند ہے۔یعنی کہ عمران خان کے بقول چین کے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں پر کوئی مظالم نہیں ہورہے ہیں جبکہ اسی مسئلے پر احتجاج کرتے ہوئے امریکہ کی قیادت میں کئی دیگر مغربی ممالک نے سرمائی اولمپکس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا۔یعنی کہ جو ملک اپنے آپ کو مسلمانوں کا مسیحا تسلیم کرانا چاہتا ہے وہ تو ایغور مسلمانوں کی حالتِ زار پر کچھ بولنے سے قاصر ہے اور مغربی ممالک اسی مسئلے پر چین کی تنقید کرتے نظر آرہے ہیں۔

ہم یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ عمران خان جو پہلے CPEC کے ناقد تھے،وہ اب اس کی تائید کیوں کر رہے ہیں؟ شاید وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ CPEC کے ذریعے چین پاکستان کے راستے افغانستان میں اپنے قدم جمانا چاہتا ہے، کیونکہ زیادہ تر چینی کمپنیاں، جو کہ CPEC کے مختلف پروجکٹس میں شامل ہیں،وہ کان کنی، انفراسٹرکچر کی ترقی، معدنیات اور کان کنی ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں اور ان کے پاس ہو سکتا ہے کہ افغانستان کے معدنی ذخائر کو کس طرح استعمال کیا جائے اس کا منصوبہ وخاکہ پہلے سے ہی موجود ہو، جو کہ تقریباً 1.3 ٹریلین ڈالر بتائے جاتے ہیں اور اگر ان کا استعمال واقعی میں افغان عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیا جائے تو اگلے 20سال میں افغانستان ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہوسکتا ہے جو کہ درحقیقت ایک خواب ہی لگتا ہے۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگا ر ہیں۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔