’مشن ابھی نامکمل، امریکی دستے کئی برسوں تک افغانستان میں رہیں گے‘

جنرل مارک ملے کا کہنا ہے کہ ’’مشن ابھی مکمل نہیں ہوا، افغانستان کو امریکہ پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گردوں کی جنت بننے سے روکنے کے لیے یہ مشن 18 سال سے جاری ہے‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

واشنگٹن: افغانستان میں 18 سال سے موجود امریکی دستے ’مزید کئی برسوں تک‘ وہاں رہیں گے۔ یہ دعوی امریکی فوج کے سربراہ نے کیا ہے۔ امریکی ٹی وی چینل ’اے بی سی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملے نے کہا کہ واشنگٹن نے افغانستان میں اپنی افواج اس لئے بھیجی تھیں کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے لئے افغانستان کو مبینہ طور پر بیس کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ افواج کی اس تعیناتی کا واحد اور واضح مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ افغانستان دوبارہ ان انتہا پسندوں کی جنت نہ بن پائے جنہوں نے امریکہ میں حملہ کیا تھا۔ جنرل مارک ملے کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’مشن ابھی مکمل نہیں ہوا، افغانستان کو امریکہ پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گردوں کی جنت بننے سے روکنے کے لیے مشن جاری ہے اور یہ 18 سال سے جاری ہے‘‘۔


انہوں نے کہا کہ اس مشن کو کامیاب بنانے کے لئے حکومت افغانستان اور افغان سیکورٹی فورسز کو اپنی داخلی سلامتی بہتر بنانے کے قابل ہونا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کو ان کی سرزمین استعمال کرکے دیگر ممالک بالخصوص امریکہ پر حملہ کرنے سے روکا جائے۔

امریکی فوجی سربراہ کا یہ بیان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیانیہ کی تائید نہیں کرتا کہ وہ افغانستان میں ختم ہوتی ہوئی جنگ میں امریکی افواج کو مزید رکھنا نہیں چاہتے اور افواج کے انخلا کا راستہ نکالنے کے لئے انہوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کی اجازت بھی دی تھی۔ ستمبر 2018 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والی بات چیت اس نتیجے پر پہنچنے والی تھی کہ افغانستان میں پائیدار امن اور امریکی افواج کے انخلا کا معاہدہ طے پایا جائے۔


رواں برس ستمبر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا کہ انہوں نے 11 ستمبر کے ہفتہ کے اختتام پر افغان صدر اشرف غنی اور سینئر طالبان رہنما کو واشنگٹن کے نزدیک صدارتی ریزورٹ میں مدعو کیا تھا۔ تاہم افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے دہشت گردی کے سلسلہ وار حملوں میں امریکی اور ناٹو فوجیوں کی ہلاکت پر انہوں نے دعوت واپس لے لی تھی بلکہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات بھی ختم کردئیے تھے۔ جس کے بعد گزشتہ ماہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل کے سفیر زلمے خلیل زاد مذاکرات بحال کرنے کی گنجائش تلاش کرنے ایک مرتبہ پھر خطہ کے دورے پر آئے تھے۔

چنانچہ اب لگتا ہے کہ امریکی، امن معاہدہ کے سلسلہ میں اہم کردار نبھانے کے لئے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور 18 سال سے جاری اس جنگ کے خاتمہ کے لئے روس اور چین سے مدد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان میں اب بھی 14 ہزار امریکی اہلکار کے ساتھ ساتھ ناٹو میں شامل ہزاروں کی تعداد میں یوروپی فوجی اہلکار موجود ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔