ایران: مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں کم از کم 50 افراد ہلاک

جرمن چانسلر اولاف شولس نے حجاب نہ پہننے کی وجہ سے ایرانی پولیس کی حراست میں ایک خاتون کی موت کو ’خوفناک‘ قرار دیا۔ اس واقعے کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اب تک 50 افراد ہلاک ہو چکے ہیں

ایران: مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کم از کم 50 افراد ہلاک
ایران: مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کم از کم 50 افراد ہلاک
user

Dw

جرمن چانسلر اولاف شولس نے ایران میں پولیس کی حراست میں مہسا امینی نامی خاتون کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔ 22 سالہ مہسا امینی کو مبینہ طور پر ’’غیر مناسب‘‘ طریقے سے اسکارف پہننے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس حراست کے دوران وہ کومہ میں چلی گئیں اور بعد ازاں ہسپتال میں ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔

جرمن چانسلر نے کیا کہا؟

اولاف شولس نے مہسا امینی کی موت کو ’’خوفناک‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں احتجاج کے دوران اس ’’جرات مند خاتون‘‘ کی ہلاکت پر بہت ’’افسوس‘‘ ہے۔ اس دوران ایران میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں درجنوں مظاہرین کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔

جرمن چانسلر کا کہنا تھا، ’’اس بات سے قطع نظر کہ دنیا کی کوئی بھی جگہ ہو، خواتین کو اپنی زندگیوں کا خطرہ محسوس کیے بغیر، ایک خود مختار زندگی جینے کے قابل ہونا چاہیے۔‘‘


جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن ہیبسٹرائٹ نے اپنے ایک بیان میں ’’امینی کی موت کی فوری اور شفاف تحقیقات‘‘ کا مطالبہ کیا۔ جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر برلن یورپی یونین کے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ نقطہ نظر پر بات کر رہا ہے، تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

کم از کم 50 افراد ہلاک

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک غیر سرکاری تنظیم نے جمعہ 23 ستمبر کو بتایا کہ اخلاقی پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں پر ایرانی سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں اب تک کم از کم 50 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔


اوسلو میں قائم ’ایران ہیومن رائٹس‘ (آئی ایچ آر) کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں اضافہ اس وقت ہوا جب جمعرات کی رات شمالی صوبے گیلان کے رضوان شہر میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے چھ افراد ہلاک ہوئے۔ شمالی ایران کے بابول اور امول نامی شہروں میں بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

اس تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ ایک ہفتے قبل شروع ہونے مظاہرے اب تقریباﹰ 80 شہروں تک پھیل چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے شمالی کردستان کے علاقے میں ہونے والی اموات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ امینی کا تعلق اسی صوبے سے تھا۔

آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری مغدّام نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اب تک کم از کم 50 افراد مارے جا چکے ہیں، اور لوگوں نے اب بھی اپنے بنیادی حقوق اور وقار کے لیے احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’عالمی برادری کو ہمارے دور کی ایک انتہائی جابرانہ حکومت کے خلاف ایرانی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘ لیکن ایرانی حکام نے جھڑپوں میں سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد کم از کم 17 بتائی ہے، جن میں پانچ سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔


حکومت کے حامیوں کی جوابی ریلیاں

امینی کی موت کے خلاف جاری مظاہروں کے درمیان ہی ایران بھر میں ہزاروں افراد نے حکومت کی حمایت اور حجاب کے حق میں بھی مظاہرے کیے ہیں۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی مہر نے جوابی مظاہرین کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ’’مذہب کے خلاف سازشیں اور توہین کرنے والوں کی مذمت کرنے والے ایرانی عوام کا عظیم مظاہرہ آج ہوا۔‘‘

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ایرانی فوج نے ’’غیر قانونی اجتماعات‘‘ میں شرکت کے خلاف خبردار کیا ہے اور خفیہ سروس نے کہا ہے کہ وہ ’’دشمنوں کو اس صورت حال کو استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے گی۔‘‘

جمعے کے روز ہی ایرانی حکام نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک رسائی کو بھی روک دیا۔ سرکاری ٹی وی کے مطابق پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد 26 تک ہو سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔