عالمی عدالت انصاف کا اہم فیصلہ ’اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کو غزہ میں امداد تقسیم کرنے دے اسرائیل‘

ججوں نے کہا کہ اسرائیل اپنے اس دعوے کو ثابت نہیں کر سکا کہ یو این آر ڈبلیو اے کے ایک بڑی تعداد میں ملازمین کا تعلق حماس سے ہے

<div class="paragraphs"><p>عالمی عدالت انصاف / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے حال ہی میں اپنے ایک فیصلے میں مشاورتی رائے دی کہ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مقبوضہ غزہ کے فلسطینیوں میں امداد کی فراہمی اسرائیل کی ذمہ داری ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی عدالت انصاف نے اس معاملے میں اپنا دائرہ اختیار تسلیم کیا اور کہا کہ وہ اس کیس میں مشاورتی رائے دے سکتی ہے۔

عدالت نے نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائیل کو یو این آر ڈبلیو اے اور دیگر اقوام متحدہ کے اداروں کو امداد کی فراہمی میں تعاون کرنا چاہیے اور نظامِ امداد تک رسائی کو آسان بنانا چاہیے۔ آئی سی جے کے ججوں نے قرار دیا کہ اسرائیل اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے ملازمین کی بڑی تعداد حماس کے ارکان ہیں۔


رواں سال اپریل میں اقوامِ متحدہ کے وکلاء اور فلسطینی نمائندوں نے عالمی عدالت میں اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا کیونکہ اسرائیل نے مارچ سے مئی کے دوران غزہ میں امداد داخل ہونے سے مکمل طور پر روک دیا تھا۔ اس وقت اسرائیل نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ حماس کے جنگجو امداد لوٹ لیتے ہیں تاہم وہ یہ الزام عدالت میں ثابت نہ کر سکا۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ غزہ کے فلسطینیوں کو ناکافی خوراک فراہم کی جا رہی ہے جب کہ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ممنوع ہے۔ فلسطینی نمائندوں کے وکیل پال رائیکلر نے کہا کہ یہ نتائج واضح کرتے ہیں کہ اسرائیل بین الاقوامی قانون کی اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہا۔ خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے جو لاکھوں فلسطینیوں کو تعلیم اور امداد فراہم کرتی ہے کے 30 ہزار سے  زائد ملازمین ہیں۔


اگرچہ مشاورتی رائے قانونی لحاظ سے قابلِ نفاذ نہیں ہوتی لیکن اس کی قانونی تشریح اثر و رسوخ رکھتی ہے اور بین الاقوامی برادری، اراکین ریاستوں اور دیگر عدالتوں کے لیے رہنمائی کا کام کرتی ہے۔ اسرائیل کی سفارتی اور قانونی پوزیشن پر خاص طور پر اُس کی بین الاقوامی ساکھ اور عسکری کارروائیوں کے جائز ہونے پر اثر پڑ سکتا ہے۔

فلسطینیوں اور ان کے حمایتی ممالک کو ایک قانونی فتح کا ذریعہ مل سکتا ہے جو آئندہ ثالثی، مذاکرات یا بین الاقوامی فیصلہ سازی میں موزوں ہو سکتی ہے۔ اسرائیل سماعت میں برا ہِ راست شریک نہیں تھا البتہ اس نے عدالت کے دائرۂ اختیار اور قانونی کارروائی کو سیاسی اور جانب دار قرار دیا۔ تاہم عدالت کی معاون صدر جج جو لیا سیبوتنڈے نے اس مشاورتی رائے کے خلاف اختلافی رائے درج کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔