ٹرمپ مذاکرات بحال کرنا چاہیں تو ’دروازے کھلے‘ ہیں: افغان طالبان

شیر محمد عباس استانکزئی کا کہنا تھا کہ’’ہماری طرف سے مذاکرات کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں، لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرا فریق بھی مذاکرات سے متعلق اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرے گا‘‘۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

کابل: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر مستقبل میں امن مذاکرات بحال کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ’دروازے کھلے ہیں‘۔ افغان طالبان کی جانب سے بیان گزشتہ روز ہونے والے حملوں کے بعد آیا ہے جس میں تقریباً پچاس سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے طالبان کے مرکزی مذاکرات کار شیر محمد عباس استانکزئی نے اس پر زور دیا کہ ’’افغانستان میں امن کے لئے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے‘‘۔ مرکزی مذاکرات کار نے امریکہ کے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے کچھ غلط نہیں کیا۔


امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’انہوں نے ہزاروں طالبان کو ہلاک کردیا لیکن اسی اثنا میں اگر ایک (امریکی) سپاہی مارا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس طرح کا ردعمل ظاہر کریں کیونکہ دونوں طرف سے کوئی جنگ بندی نہیں ہوئی ہے‘‘۔ شیر محمد عباس استانکزئی کا کہنا تھا کہ’’ہماری طرف سے مذاکرات کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں، لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرا فریق بھی مذاکرات سے متعلق اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرے گا‘‘۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر معاہدہ پر عمل ہوتا تو طالبان اور غیرملکی افواج کے درمیان جنگ بندی عمل میں آچکی ہوتی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ طالبان افغان حکومتی فورسز کے درمیان اس طرح کی کوئی جنگ بندی موجود نہیں۔ شیر محمد عباس استانکزئی کا کہنا تھا کہ انٹرا افغان مذاکرات 23 ستمبر کو شروع ہونے تھے اور اگر معاہدہ طے پا جاتا تو اس میں وسیع تر جنگ بندی سے متعلق معاملات شامل ہوتے۔


دوران انٹرویو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ امن مذاکرات میں مدد کے لئے طالبان نے روس اور چین سے رابطہ کیا تھا۔ خیال رہے کہ طالبان کے مرکزی مذاکرات کار کا یہ انٹرویو امریکی صدر کے اس اعلان کے جلو میں آیا، جس میں انہوں نے افغان امن مذاکرات معطل کر دیئے تھے۔

علاوہ ازیں افغان قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا تھا کہ طالبان کے ’دھمکی آمیز ہتھکنڈے‘ کامیاب نہیں ہوں گے۔ ڈاکٹر حمداللہ محبت نے برٹش براڈ کاسٹنگ (بی بی سی) سے بتایا کہ ’’افغانستان میں امن کا واحد راستہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ہے‘‘۔


ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارے پڑوسی ممالک جو طالبان کی حمایت اور سرپرستی کر رہے ہیں ان سے کھل کر گفتگو اور ہمارے مذاکرات میں پیچھے نہیں آگے ہونا چاہیے‘‘۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان سے قبل امریکہ اور طالبان دونوں کے درمیان 18 سالہ طویل افغان جنگ کے خاتمہ کے لئے مذاکرات کے کافی قریب پہنچ گئے تھے۔

تاہم امریکی صدر نے ان مذاکرات کے معاہدہ کو حتمی شکل دینے سے قبل ہی ان کی معطلی کا اعلان کرتے ہوئے طالبان کی سینئر قیادت اور افغان صدر اشرف غنی سے 8 ستمبر کو کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی خفیہ ملاقات بھی منسوخ کردی تھی۔ امریکی صدر نے مذاکرات کی معطلی کا جواز کابل میں طالبان کے حملہ میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کو بنایا تھا۔


اگر دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے ممکنہ معاہدے پر نظر ڈالیں تو اس معطلی کے اعلان سے قبل 3 ستمبر کو امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے یہ بتایا تھا کہ معاہدہ میں یہ شامل ہے کہ امریکا 20 ہفتوں میں افغانستان سے 5000 ہزارسے 400 فوجیوں کا انخلا کردے گا۔

تاہم ان فوجیوں کے انخلا کے بدلے میں طالبان کو یہ وعدہ کرنا تھا کہ افغانستان دوبارہ کبھی بیرونی دہشت گردی کے لیے مسکن نہیں بنے گا۔ یاد رہے کہ 11 ستمبر 2001 میں امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد سے افغانستان میں امریکی افواج موجود ہیں اور 18 سال سے طویل جنگ جاری ہے، جس کے باعث افغانستان بدامنی کا شکار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM