لاؤس: ڈیم ٹوٹنے کے بعد تقریباً 1300 افراد لاپتہ، کئی ہلاکت کا اندیشہ

لاؤس میں ڈیم ٹوٹنے کے بعد اربوں کیوبک ٹن پانی چھ مختلف دیہات میں پھیلنا شروع ہو گیا ہے۔ اس حادثہ کے بعد سینکڑوں افراد لاپتہ بتائے جا رہے ہیں۔

لاؤس میں ڈیم ٹوٹنے کے بعد کا منظر
لاؤس میں ڈیم ٹوٹنے کے بعد کا منظر
user

ڈی. ڈبلیو

جنوب مشرقی ایشیائی ملک لاؤس میں ایک ڈیم کے ٹوٹنے کے بعد حکام نے سینکڑوں افراد کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ جنوب مشرقی لاؤس میں واقع ڈیم کا بند منہدم ہونے سے اربوں کیوبک ٹن پانی قریب کے چھ دیہات میں پھیل چکا ہے اور تقریباً 1300 افراد کے لاپتہ ہونے کے بارے میں اطلاع دی گئی ہے۔ ایک وسیع علاقہ زیر آب آ چکا ہے اور پانی آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ پھیلتا جا رہا ہے۔ حکام نے امدادی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ابھی تک ہلاک شدگان کی کسی حتمی تعداد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ڈیم ٹوٹنے کے بعد ساڑھے چھ ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ ڈیم ٹوٹنے کا واقعہ پیر تیئیس جولائی کی شام میں پیش آیا۔ اس حادثے کے فوری بعد صوبائی حکومت نے علاقے میں ایمرجنسی کا نفاذ بھی کر دیا ہے۔

لاؤس کے وزیراعظم تھون گلون سیسولیتھ نے اس ہنگامی صورت کے تناظر میں اپنی معمول کی سرگرمیوں کو معطل کر دیا ہے۔ وہ اپنی کابینہ کے ہمراہ ڈیم کے قریبی علاقے سانامشے میں پہنچ گئے ہیں اور تمام کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ زیپئن زی نام نوئے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم لاؤس اور تھائی لینڈ کا ایک مشترکہ پروجیکٹ ہے اس کو مختلف چھوٹی کمپنیوں نے ایک بڑے جنوبی کوریائی تعمیراتی ادارے کے اشتراک سے تعمیر کروانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ بظاہر مرکزی بند کی تعمیر کا مرحلہ مکمل ہو گیا تھا لیکن ابھی بعض حصوں کے تعمیر جاری ہے۔

اس ڈیم کے ذریعہ رواں برس کے دوران آپریشنل ہو کر بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ شروع ہونا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس ڈیم پر ایک بلین ڈالر سے زائد لاگت آئی ہے۔ یہ ڈیم لاؤس کے اتاپیو صوبے میں واقع ہے۔ لاؤس کی سرکاری نیوز ایجنسی کے پی ایل کے مطابق ملک کے کئی حصے شدید بارش کے بعد ابھی تک سیلابی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ یہ جنوب مشرقی ایشیائی ملک کئی ڈیموں سے بجلی پیدا کر کے ایکسپورٹ بھی کرتا ہے۔ بجلی کی خریداری میں تھائی لینڈ ایک اہم خریدار خیال کیا جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Jul 2018, 10:10 PM