افغان عوام جنگ ختم نہ ہونےکی ذمہ داری امریکا پر عائد کرتے ہیں

2001ء میں افغانستان میں امریکی افواج اپنے افغان اتحادیوں کے ہمراہ کابل میں داخل ہوئیں تھیں تو وہاں عوام نے جشن منا کر استقبال کیا تھا۔ مگر 17 برس بعد اب افغان باشندے امریکا کی تنقید کرتے ہیں۔

امریکی فوجی
امریکی فوجی
user

ڈی. ڈبلیو

افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے17 برس بعد ایک مرتبہ پھر طالبان افغانستان کے قریب نصف حصے پر قابض ہیں جبکہ افغان باشندے جنگ ختم نہ ہونے کی تمام تر ذمہ داری امریکا پر عائد کرتے ہیں۔

امریکا نے اس جنگ میں 24 سو سے زائد فوجی کھوئے۔ یہ جنگ امریکا کی طویل ترین جنگوں میں سے ایک ہے، جس پر اب تک نو سو ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ یہ سرمایہ عسکری معاونت اور کارروائیوں سے لے کر افغانستان میں سڑکوں، پلوں اور بجلی گھروں کی تعمیر تک خرچ کیا گیا۔

تین امریکی صدور افغانستان کے معاملے پر فوجیوں کی تعداد میں اضافے سے فوجی انخلا تک اور طالبان کے خلاف کارروائیوں سے امن مذاکرات تک کئی مختلف طریقے استعمال کر چکے ہیں، جب کہ افغانستان میں امریکا پہلی مرتبہ ’مدر آف آل بمز‘ تک استعمال کر چکا ہے۔ تاہم اب تک افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لیے کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوا۔ دوسری جانب افغان عوام اور رہنما اس بابت کئی طرح کے سازشی نظریات تک پر یقین رکھتے ہیں۔

افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے رکن محمد اسماعیل قاسم یار کو حیرت ہے کہ امریکا اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں اپنے فوجیوں کی تعیناتی اور ہزاروں افغان سیکورٹی اہلکاروں کی مدد کے باوجود کیوں چند ہزار طالبان کو ختم نہ کر سکا؟ ’’یا تو یہ ایسا چاہتے نہیں یا کر نہ سکے۔‘‘

قاسم یار اس شبہ کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ امریکا اپنے اتحادی ملک پاکستان کے ساتھ دانستہ طور پر افغانستان کو غیرمستحکم کرنے میں مصروف ہے، تاکہ وہاں افراتفری موجود رہے اور افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے قیام کی راہ ہموار رہے۔ واضح رہے کہ اس وقت افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کی مجموعی تعداد پندرہ ہزار کے قریب ہے۔ قاسم یار کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان کے ذریعے ایران، روس اور چین پر نگاہ رکھنا چاہتا ہے۔ ’امریکا نے ہمارے لیے افغانستان کو جہنم بنایا ہے، جنت نہیں۔‘‘

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق افغانستان میں اس انداز کے سازشی نظریات کی بازگشت ہر جانب سنائی دیتی ہے۔ گزشتہ ماہ قندھار پولس کے سربراہ جنرل عبدالرزاق طالبان کے ایک حملے میں مارے گئے، تو سوشل میڈیا صارفین اس معاملے کو بھی ’امریکی سازش‘ قرار دیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حالیہ داخلی حملوں میں امریکی اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے فوجیوں کی ہلاکت پر بھی سوشل میڈیا میں جشن منایا جاتا رہا۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی کے مطابق ’’سن 2001ء میں امریکا اور بین الاقوامی برادری کی مداخلت کو افغان عوام نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا۔ کچھ عرصے تک کئی چیزیں نہایت درست انداز سے چلتی رہیں۔ مگر پھر ہم نے دیکھا کہ امریکا نے اپنا راستہ تبدیل کیا یا افغان عوام کے نکتہ ہائے نگاہ اور حالات کو یکسر انداز کرنا شروع کر دیا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Nov 2018, 7:00 AM