جب سنجیوکمار کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے

بغیر بولے صرف آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے شائقین کو سب کچھ بتا دینا ان کی اداکاری کی ایسی مثال تھی، جسے شاید ہی کوئی اداکار دہرا پائے ۔

تصویر،یو این آئی
تصویر،یو این آئی
user

یو این آئی

سنجیو کمار 9 جولائی 1938 کو ایک متوسط طبقے کے گجراتی خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ بچپن سے ہی فلموں میں ہیرو بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے اور اپنے اسی خواب کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے فلمالیہ کے ایکٹنگ اسکول میں داخلہ لے لیا۔

انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز 1965 کی فلم’نشان‘ سے کیا ۔1960 سے 1968 تک وہ فلم انڈسٹری میں جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے ۔فلم ’ہم ہندوستانی‘ کے بعد انہیں جو بھی کردار ملا وہ اسے قبول کرتے چلے گئے۔اس دوران انہوں نے اسمگلر،پتی پتنی، حسن اور عشق، بادل، نونہال اور گناہگار جیسی کئی بی گریڈ کی فلموں میں اداکاری کی لیکن ان میں سے کوئی بھی فلم باکس آفس پر کامیاب نہ ہوئی۔

سال 1968 میں فلم’شکار‘ میں سنجیو کمار نے پولیس آفیسر کا کردار نبھایا۔ حالانکہ یہ فلم پوری طرح اداکار دھرمیندر پر مرکوز تھی اس کے باوجود وہ اپنی اداکاری کے تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہے جس کے لیے انہیں معاون اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔1970 میں فلم کھلونا کی زبردست کامیابی کے بعدوہ ہیرو کے طور پر شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے اور اسی سال ریلیز ہوئی فلم ’دستک‘ میں اپنی لاجواب اداکاری کے لیے انہیں بہترین اداکار کے قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔


گرودت کی بے وقت موت کے بعد ڈائریکٹر کے آصف نے اپنی فلم ’’لو اینڈ گاڈ‘‘ کی تخلیق کا کام بند کر دیا اور اپنی نئی فلم ’’سستا خون مہنگا پانی ‘‘كی پروڈکشن میں لگ گئے ۔ راجستھان کے خوبصورت شہر جودھپور میں اس فلم کی شوٹنگ کے دوران ایک نیا آرٹسٹ فلم میں اپنی باری آنے کا انتظار کرتا رہا ۔

تقریباً 10 دن گزرنے کے بعد بھی اسے کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔بعد میں کے آصف نے اسے ممبئی واپس جانے کےلئے کہہ دیا۔ یہ سن کر اس لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے ’سستا خون مہنگا پانی‘ بند کردی اور ایک مرتبہ پھر ’لو اینڈ گاڈ‘ بنانے کا اعلان کردیا۔


گرودت کی موت کے بعد کے آصف اپنی فلم ’’لو اینڈ گاڈ‘‘ کے لیے ایک ایسے اداکار کی تلاش میں تھے جس كی آنکھیں بھی پردے پر بولتی ہوں اور وہ اداکار انہیں سنجیو کمار کی صورت میں ملا۔

یہ وہی لڑکا تھا جسے انہوں نے اپنی فلم’’سستا خون مہنگا پانی‘‘ كی شوٹنگ کے دوران ممبئی واپس جانے کے لئے کہہ دیاتھا اور جو بعد میں فلم انڈسٹری میں سنجیو کمار کے نام سے مشہور ہوا۔


اپنی بااثر اداکاری سے ہندی سنیما میں اپنی مخصوص شناخت بنانے والے سنجیو کمار کو اپنے کیریئر کے ابتدائی دنوں میں وہ دن بھی دیکھنے پڑے جب انہیں فلموں میں ہیرو کے طور پر کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔

سال 1972 میں فلم’کوشش‘ میں ناظرین کو سنجیو کمار کی اداکاری کے نئے طول و عرض دیکھنے کو ملے اس فلم میں گونگے بہرے کا کردار نبھانا کسی بھی اداکار کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔بغیر بولے صرف آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے شائقین کو سب کچھ بتا دینا ان کی اداکاری کی ایسی مثال تھی، جسے شاید ہی کوئی اداکار دہرا پائے ۔ اس فلم میں اپنی لاجواب اداکاری کے لیے انہیں دوسری مرتبہ بہترین اداکار کا نیشنل ایوارڈ دیا گیا۔


سنجیو کمار کی اداکاری کی خاصیت یہ رہی کہ وہ کسی بھی طرح کے کردار کے لیے ہمیشہ دستیاب رہتے تھے ۔انہوں نے فلم کوشش میں گونگے بہرے کا کردار،’شعلے ‘ میں ٹھاکر کا،فلم ’سیتا اور گیتا ‘ اورانامیکا میں عاشق کا کردار اور فلم نیا دن نئی رات میں نو مختلف کرداراتنی خوبصورتی سے ادا کئے کہ جیسے وہ کردار انہی کے لئے بنے ہوں۔

اداکاری میں یکسانیت سے بچنے اور خود کو کریکٹر ایکٹر کے طور پر قائم کرنے کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو مختلف کرداروں میں پیش کیا ۔سنجیو کمار 1975 میں فلم شعلے میں جیہ بھادڑی کے سسر کا کردار نبھانے سے بھی نہیں ہچکچائے حالانکہ فلم کوشش اور انامیکا جیسی فلموں میں وہ ان کے ہیرو کا کردار ادا کرچکے تھے۔


سنجیو کمار دو مرتبہ بہترین اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازے گئے ۔ اپنی بااثر اداکاری سے ناظرین کے دلوں میں خاص شناخت بنانے والا یہ عظیم فنکار 6 نومبر 1985 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔