فلسطینی مزاحمت پر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی سازش

ان طاقتوں کے نمائندے کبھی حماس کو صہیونیوں کا ایجنٹ بتا رہے ہیں تو کبھی ان ممالک پر لعنت ملامت کر رہے ہیں جو اہل فلسطین کے جدو جہد آزادی کے حوصلوں کو پست نہیں ہونے دے رہے ہیں

<div class="paragraphs"><p>احتجاج کرتے فلسطینی نوجوان / Getty Images</p></div>

احتجاج کرتے فلسطینی نوجوان / Getty Images

user

سراج نقوی

اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مزاحمت کی فلسطینی عوام کو بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے، لیکن عالم اسلام کی قیادت کی دعویدار وہ طاقتیں جنہوں نے تاریخ کے کسی بھی دور میں فلسطینیوں کی اپنی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے جاری تحریک میں برائے نام بھی مدد نہیں کی، جنہوں نے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو اپنی منافقانہ مصلحتوں کے پردے میں چھپانے کی بزدلانہ کوششوں کے سوا کچھ نہیں کیا وہ اب نقاب اتار کر اپنے اصلی روپ میں آ گئے ہیں۔ ان طاقتوں کے نمائندے کبھی حماس کو صہیونیوں کا ایجنٹ بتا رہے ہیں تو کبھی ان ممالک پر لعنت ملامت کر رہے ہیں جو فلسطینی عوام کو مالی امداد بھلے ہی کچھ ملکوں سے کم دے رہے ہوں، لیکن اہل فلسطین کے جدو جہد آزادی کے حوصلوں کو پست نہیں ہونے دے رہے ہیں۔

جدید ترین اسلحہ سے لیس صہیونی ریاست کی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اہل فلسطین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اس لیے کہ فلسطینیوں کا مقابلہ صرف صہیونیوں کی دولت و ثروت سے نہیں ہے بلکہ ان کی ایسی فوجی طاقت سے بھی ہے کہ جسے امریکہ اور پوری مغربی دنیا کی حمایت حاصل ہے۔ اپنی ہی سرزمین سے بے دخل کر دیے گئے ان مظلوموں کو صرف پیٹ بھرنے کے لیے روٹی ہی نہیں چاہیے،

اور فلسطینیوں کو ایسی مالی امداد دینے کا ڈرامہ تو وہ مغربی ممالک بھی برسوں سے کر رہے ہیں کہ جو اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں، لیکن یہ ممالک اپنا اسلحہ اور ٹکنالوجی اسرائیل کو دے رہے ہیں حماس کو نہیں۔ ظاہر ہے اس پالیسی کا مقصد روٹی کے چند ٹکڑے فلسطینیوں کو ڈال کر ان پر احسان جتانے کے سوا کچھ نہیں، لیکن فلسطینی کی تحریک آزادی کی عملی حمایت میں یہ ممالک کبھی آگے نہیں آئے۔ اس لیے کہ ایسا کرنے میں مشرق وسطیٰ کی مسلم اکثریت کو اپنا غلام بنانے اور وہاں اپنے فوجی اڈے قائم رکھنے کا ان کا منصوبہ کمزور ہوتا۔ مغرب یہی تو چاہتا ہے کہ مسلمان صرف اپنی شکم پُری تک محدود رہیں اور ’بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دینے‘ کی اپنی جس تاریخی صلاحیت پر انہیں ناز ہے اس سے محروم ہی رہیں۔ مغرب جانتا ہے کہ چالبازیوں سے مسلمانوں کو دولت کے سہارے عیش کرنے کے منفی رجحان میں مبتلا کر کے ہی عالم اسلام کو کمزور کیا جا سکتا ہے اور یہی مغربی طاقتیں کر رہی ہیں۔


یاد کیجئے کہ ایران میں اسلامی انقلاب سے قبل کیا حالات تھے۔ یہ ملک مغربی طاقتوں کی غلامی میں فخر محسوس کرتا تھا اور مغربی کلچر کے نام پر عیش پرستی میں مبتلا تھا، لیکن اسلامی انقلاب کے بعد جب ایران اور مغرب میں تعلقات کشیدہ ہوئے تو ایران کا معاشی بائیکاٹ کر دیا گیا۔ الزام یہ لگایا گیا کہ ایران ایٹم بنا رہا ہے اور ظاہر ہے یہ مان لیا گیا ہے کہ ایٹم بم بنانے کا حق صرف مغربی ممالک یا اسرائیل کو ہے۔ کم از کم مسلم ممالک کو تو قطعی نہیں۔

بہرحال یہ الگ موضوع ہے، اصل بات یہ ہے کہ مغرب کے چار دہائیوں سے زیادہ کے معاشی بائیکاٹ نے ایران کو کمزور کرنے کے بجائے اسے ایک ایسی فوجی طاقت بنا دیا ہے کہ آج وہ امریکہ اور اس کی حمایت یافتہ صہیونی دہشت گرد ریاست کے سامنے مضبوطی سے کھڑا نظر آتا ہے۔ یعنی اہم بات کسی ملک کی صرف مالی امداد نہیں بلکہ اس کی اخلاقی حمایت اور اس کی عسکری مدد، تکنیکی مدد یا اس کی ترقیاتی سرگرمیوں کی حمایت ہے، تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر اپنے جائز حقوق کی حفاظت کر سکے۔ فلسطین کو مالی مدد دینے والی طاقتوں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ اس کا سبب یہی ہے کہ یہ طاقتیں فلسطین کو اسرائیل کے مقابلے دفاعی اعتبار سے طاقتور ہوتے دیکھنا نہیں چاہتیں۔

یہی معاملہ ان مسلم ممالک کا بھی ہے کہ جو اسرائیل کی مالی مدد دینے کو ہی اپنا بڑا کارنامہ تصور کر رہے ہیں اور ان کے چند وظیفہ خوار اس بات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ فلاں ملک نے فلسطین کی اتنی بڑی مدد کر کے اپنا فرض ادا کر دیا۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ایک نوجوان پہلے امیر مینائیؔ کا یہ شعر پڑھتا ہے کہ، ”خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ...سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔“

اس کے بعد ایک مسلم ملک کا نام لیکر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے تمام عالم اسلام کی نیابت کرتے ہوئے فلسطینیوں کی ایسی مدد کی ہے کہ آج تک کسی نے نہیں کی ہوگی۔ واضح رہے کہ جس ملک کا ذکر کیا جا رہا ہے اس میں مغربی فنکاروں کو بلا کر شاندار رقص و موسیقی کی محفل منعقد کرنے کے سبب اس لیے اعتراضات ہو رہے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر کے مسلمان ہی نہیں بلکہ ایک دردمند انسان کا دل رکھنے والا ہر شخص غم زدہ ہے اور غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر ہا ہے، لیکن فلسطین کو بڑی مالی مدد دینے والے یہ حاتم تائی کے جا نشین فلسطینیوں پر ٹوٹنے والے اسرائیلی مظالم سے بے نیاز ہو کر جشن رقص و موسیقی میں مصروف ہیں اور ان کے وظیفہ خوار مالی مدد کو مسلمانوں کی طرف سے فلسطینیوں کی نیابت بتا کر فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔ اس نوجوان کا دعویٰ ہے کہ پہلے سربراہ مملکت نے اپنے فنڈ سے پھر ملک کی دیگر اہم شخصیات نے اور پھر عوام نے فلسطینیوں کے لیے چندہ مہم میں حصہ لیکر 260 ملین ریال جمع کیے۔ اس نوجوان کا کہنا ہے کہ یہ اتنی خطیر رقم ہے کہ اس سے تباہ حال غزہ کی دوبارہ پہلے سے بھی بہتر تعمیر نو ہو سکتی ہے۔


حالانکہ اس نے یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ معصوم بچے اور دیگر مرنے والے واپس نہیں آ سکتے کہ جن کا خون بہہ گیا۔ اس نوجوان نے یہ بھی کہا کہ proxy war کرانے والے ممالک ہی یہ جنگیں کراتے ہیں، انھوں نے یمن میں ایسا ہی کیا اور پھر وہاں سے بھاگ گئے۔ یہ روئے سخن کس طرف ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔ راقم الحروف نے اس خیال سے مالی امداد کرنے والے ملک کا بھی نام دینے سے گریز کیا ہے کہ یہ مسلمانوں میں آپسی اختلافات کو بڑھانے کے مترادف ہوگا اور ایسا کوئی بھی عمل صہیونیوں کی بالواسطہ مدد کرنا ہوگا۔اس نوجوان نے مالی مدد نہ دینے کے معاملے میں ایک مسلم ملک پر انگلی بھی اٹھائی اور لبنان کی تنظیم ’حزب اللہ‘ کو بھی نشانہ بنایا۔ چندہ دینے والے ملک کا نام لیکر اس کا کہنا ہے کہ یہ جنگ نہیں لڑتے، پروکسیاں نہیں پالتے البتہ مالی امداد دینے میں سب سے آگے رہتے ہیں اس سلسلے میں نوجوان نے دوسرے مسلک کی اکثریت والے ممالک کے تعلق سے بھی زہر اگلا۔

اس طرح کی کوششیں دراصل مسلمانوں کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی صہیونی سازشوں کا حصہ ہیں۔ اس لیے کہ اسرائیل اور مغربی طاقتیں یہ جانتی ہیں کہ جس دن مسلمان متحد ہو گئے، جس دن انھوں نے اپنے مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈال دیا اسی دن ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اسی دن مغربی طاقتوں اور امریکہ کا ان ممالک سے بستر بندھ جائے گا۔ مذکورہ نوجوان یا اس کے جیسے نظریات رکھنے والے دیگر عناصر کو کون سمجھائے کہ مالی امداد تو ’خوں بہا‘ کی شکل میں ایک قاتل بھی مقتول کے اہل خانہ کی کر سکتا ہے لیکن مرنے والوں کے آنسو پونچھنا اور انہیں مضبوطی سے قاتلوں کے مقابل کھڑے رکھنا زیادہ بڑا کارنامہ ہے۔ یہ درست ہے کہ امن کی حمایت زیادہ اہم ہے لیکن یہ حمایت قاتل کے جرم کو نظر انداز کر کے نہیں کی جا سکتی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے لیکن اس کے باوجود اگر اسلامی تاریخ میں حضور اکرم ﷺ نے جو جنگیں لڑیں اس کا سبب یہی تھا کہ امن کے متبادل ختم ہو گئے تھے اور اپنے دفاع میں و ظلم کے خلاف جنگ لڑنا ضروری تھا۔ مظلوم فلسطینی نصف صد ی سے زیادہ سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں، ان کی عسکری مدد کو proxyکہنا دراصل مظلوم فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی توہین اور عالم اسلام کو یا مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش ہے اور اس سے بچا جانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔