امریکہ کا ایرانی اہداف کے خلاف سخت اقدامات کا منصوبہ

امریکہ نے حملے کے فوی بعد ہی کہا تھا کہ اس کے قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا، تاہم تقریبا ایک ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک اس نے جوابی کارروائی نہیں کی۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

اردن میں تین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ نے شام اور عراق میں ایرانی اہداف پر مزید حملوں کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ یہ حملے مسلسل کئی دنوں تک بھی ہو سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر ان کا آغاز موسم کے حالات کے مطابق ہو گا۔امریکہ کے ایک معروف میڈیا ادارے سی بی ایس نیوز کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے شام اور عراق میں ایرانی اہداف پر سلسلہ وار حملوں کے منصوبوں کو منظوری دے دی ہے۔

گزشتہ اتوار کے روز شام کی سرحد کے قریب اردن میں ایک ڈرون حملے میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ان اقدام کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ امریکہ نے اس حملے کا الزام ایک ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا گروپ پر عائد کیا ہے۔ حملہ کرنے والے گروپ کا نام 'اسلامک ریزیسٹنس ان عراق' (عراق میں اسلامی مزاحمت)ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ گروپ متعدد ملیشیاؤں پر مشتمل ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ اتوار کے حملے کا وہی ذمہ دار تھا۔ الزام ہے کہ ایران کی پاسداران انقلاب فورسز نے ہی اس گروپ کو مسلح کیا اور مالی امداد دینے کے ساتھ ہی انہیں تربیت بھی فراہم کی ہے۔البتہ ایران نے اس حملے میں اپنا کسی بھی طرح کا کردار ہونے سے انکار کیا اور کہا ہے کہ وہ اس میں قطعی ملوث نہیں ہے۔


امریکہ نے حملے کے فوی بعد ہی کہا تھا کہ اس کے قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا، تاہم تقریبا ایک ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک اس نے جوابی کارروائی نہیں کی اور واشنگٹن میں کئی حلقوں کی جانب سے ایران کے خلاف کارروائی کرنے کا بائیڈن انتظامیہ پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ البتہ جمعرات کے روز ایک نیوز کانفرنس کے دوران امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے تاخیر سے فوجی ردعمل کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ''ہم اس کا جواب دیں گے، کہاں اور کیسے حملہ کرنا ہے اور کب کرنا ہے، اس کا انتخاب ہم خود کریں گے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''میرے خیال سے ہر شخص اس بات کو یقینی بنانے کے چیلنج کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ ہم صحیح لوگوں کو جوابدہ ٹھہرائیں۔ ایسا کرنے کا پہلے سے طے شدہ کوئی فارمولہ بھی'' نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ''اس کو منظم کرنے کے طریقے بھی موجود ہیں، تاکہ یہ قابو سے باہر بھی نہ ہونے پائے۔ اور ابتدا سے ہی ہماری اس پر توجہ بھی مرکوز رہی ہے۔''


سی بی ایس نیوز سے بات کرنے والے امریکی اہلکاروں نے ممکنہ حملوں کے بارے میں کوئی صحیح وقت کا تعین نہیں کیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج خراب موسم میں فوجی کارروائی کا آغاز کر سکتی ہے، البتہ شہریوں کو نشانہ بنانے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے بہتر اقدامات کو ترجیح دی جائے گی۔ صدر جو بائیڈن پر ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ریپبلکن قانون سازوں کی طرف سے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان میں سے بعض وہ ارکان بھی شامل ہیں، جو ایران کے سخت ناقد ہیں اور چاہتے ہیں کہ حملے ایران کی سر زمین پر کیے جائیں۔

امریکہ نے بارہا ڈرون حملے کا جواب دینے کا تو وعدہ کیا ہے، تاہم بائیڈن کی انتظامیہ اور دیگر دفاعی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ایران کے ساتھ وسیع جنگ یا خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں چاہتا ہے۔ مسٹر بائیڈن نے اس ہفتے کے اوائل میں وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا تھا، ''یہ وہ نہیں ہے جس کو میں تلاش کر رہا ہوں۔'' اطلاعات کے مطابق منظور شدہ حملے کے منصوبے ایرانی سرزمین کے بجائے شام اور عراق میں ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہیں۔


گزشتہ اتوار کو اردن میں واقع ٹاور 22 کے نام سے معروف فوجی اڈے پر ڈرون سے حملہ ہوا تھا، جس میں تین فوجیوں کی ہلاکت کے ساتھ ہی 41 دیگر امریکی فوجی زخمی بھی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والے تینوں امریکی فوجیوں کی لاشیں جمعے کے روز ریاست ڈیلاویئر میں ایئر فورس کے اڈے پر پہنچنے کا امکان ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ صدر جو بائیڈن بذات خود اس میں شریک ہوں گے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی خفیہ اداروں کا خیال ہے کہ اس فوجی اڈے پر حملہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والا ڈرون ایران نے ہی تیار کیا تھا اور یہ کہ یہ ان ڈرونز سے بھی ملتا جلتا ہے، جو ایران نے یوکرین پر حملے کے لیے روس کو بھیجا تھا۔ سات اکتوبر کو مشرق وسطی میں جنگ کے آغاز کے بعد سے ایرانی حمایت یافتہ متعدد گروپوں کی جانب سے امریکہ اور مغربی ممالک سے منسلک اداروں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔


مثال کے طور پر یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں بحری جہازوں پر حملے کیے ہیں۔ جواباً امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے بھی حملے کیے گئے ہیں۔ نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے خبر رساں ادارے روئٹرز نے جمعرات کے روز یہ بھی اطلاع دی کہ خطے میں براہ راست وسیع تنازعے سے بچنے کے لیے ایران نے شام سے اپنے سینیئر حکام کو واپس بلا لیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔