اگر ایرانی بحری جہاز پکڑےگئے تو بدلہ لیا جائے گا، تہران کا انتباہ

ایرانی صدر کے قانونی مشیر نے امریکہ کے محکمہ انصاف کے ایک بیان کے جواب میں کہا ہے کہ اگر ایران کے بحری جہاز پکڑے گئے تو ایران اس کا بدلہ لے گا۔

اگر ایرانی بحری جہاز پکڑےگئے تو بدلہ لیا جائے گا، تہران کا انتباہ
اگر ایرانی بحری جہاز پکڑےگئے تو بدلہ لیا جائے گا، تہران کا انتباہ
user

Dw

ایرانی صدر کے قانونی مشیر نے امریکہ کے محکمہ انصاف کے ایک بیان کے جواب میں کہا ہے کہ اگر ایران کے بحری جہاز پکڑے گئے تو ایران اس کا بدلہ لے گا۔ جمعرات کو اپنے سرکاری میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایرانی صدر کے قانونی مشیر نے رواں ماہ امریکہ کے محکمہ انصاف کی طرف سے ایرانی ایندھن کو ضبط کیے جانے کے اعلان کے ضمن میں بات کی۔ امریکی محکمہ انصاف نے اعلان کیا تھا کہ 5 لاکھ بیرل سے زیادہ ایرانی ایندھن ضبط کر لیا جائے گا تاکہ ایران کے 'انقلابی گارڈز یا پاسداران‘ کی مالی امداد کے نیٹ ورک کو روکا جا سکے۔

ایرانی صدر کے مشیر محمد دہقان نے اپنے بیان میں کہا، '' اگر کوئی ایرانی جہاز پکڑا جاتا ہے، تو ہم اس کا بدلہ لیں گے۔‘‘ دہقان نے ساتھ ہی اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے یا اس امر کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ امریکی حکام نے ایرانی بحری جہاز کو قبضے میں لیا تھا۔ ایران کے عدالتی نظام کی طرف سے ایسے عدالتی احکامات اکثر جاری ہوتے رہتے ہیں، جن کی بنیاد پر انقلابی گارڈز یا پاسداران کی طرف سے غیر ملکی ٹینکرز کو قبضے میں لیا جاتا ہے۔


گزشتہ سال یعنی 2023 ء کے آخر میں بحیرہ احمر میں عالمی شپنگ کے نظام میں کافی خلل پیدا ہوا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حماس اور اسرائیل کی جنگ ہے۔ اس تناظر میں ایرانی حمایت یافتہ یمنی حوثی جنگجوؤں کی طرف سے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی حمایت کرتے ہوئے حوثی باغیوں کے گروپ نے بحیرہ احمر میں متعدد مغربی جہازوں کو نشانہ بنایا۔

یاد رہے کہ نئے سال یعنی 2024 ء کے آغاز سے ہی تجزیہ کاروں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ بحیرہ احمر میں امریکی قیادت والے فوجی اتحاد اور حوثی ملیشیا کے مابین کشیدگی ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے حق میں ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں واشنگٹن میں قائم انفارمیشن ریسرچ سینٹر برائے یمن کے سابق ڈائریکٹر ہشام العمیسی نے ایک بیان میں کہا تھا، ''حوثی باغی امریکہ کے ساتھ تصادم کا موقع تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ مزید برآں ان کا کہنا تھا، ''پچھلے آٹھ سالوں سے حوثی اپنے حامیوں کو بتا رہے ہیں کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​میں ہیں لہذا یہ ان کے لیے ایک سنہری موقع ہے، جس سے انہیں فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘


یمن دراصل 2014 ء سے حالت جنگ میں ہے۔ تب حوثی باغیوں نے یمن کی سعودی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف مزاحمت شروع کی تھی اور جو بعد ازاں جنگ یک صورت اختیار کر گئی۔ نو سال سے جاری اس جنگ میں یمن حوثیوں کے زیر کنٹرول ملک کے شمال اور مغرب میں تقسیم ہو گیا۔ حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں آبنائے باب المندب بھی شامل ہے، جو بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے لیے ایک اہم ترین سمندری گزر گاہ ہے۔ یمن کے جنوب میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کا کنٹرول ہے جب کہ مشرق میں مقامی قبائلیوں کا غلبہ ہے۔

تجزیہ کار ہشام العمیسی کے مطابق بحیرہ احمر میں ایک مال بردار بحری جہاز پر حوثیوں کے ڈرون حملے کی قیمت تقریباً 1,200 ڈالر ہے، جبکہ امریکی فوجی اتحاد کے حوثیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جانے والے ایک بم کی قیمت تقریباً 1.5 ملین ڈالر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔