کیا نوجوان جرمن ووٹر دائیں بازو کی سیاست میں پھنس سکتے ہیں؟

یورپی پارلیمان کے الیکشن کی خاطر حق رائے دہی استعمال کرنے کی کم سے کم عمر سولہ برس صرف جرمنی میں ہی نہیں ہے بلکہ کئی دیگر یوروپی ممالک میں بھی ہے۔

کیا نوجوان جرمن ووٹر دائیں بازو کی سیاست میں پھنس سکتے ہیں؟
کیا نوجوان جرمن ووٹر دائیں بازو کی سیاست میں پھنس سکتے ہیں؟
user

Dw

یورپی پارلیمان کے الیکشن کی خاطر حق رائے دہی استعمال کرنے کی کم سے کم عمر سولہ برس صرف جرمنی میں ہی نہیں ہے بلکہ بیلجیم، آسٹریا، یونان اور مالٹا کے نوجوان ووٹر بھی یورپی سیاست کے رخ کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ نوجوان جرمن ووٹروں کی تربیت کی خاطر ایجوکیٹرز اور مختلف ادارے متعدد اقسام کی ورکشاپس منعقد کر رہے ہیں تاکہ نوجوان نسل کی سیاسی بصیرت میں اضافہ کیا جا سکے۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اعتدال پسند سیاسی جماعت سوشل ڈٰیموکریٹک پارٹی سے وابستہ غیر سرکاری ادارے فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن نے اس پیش رفت کو یوتھ کی 'تربیت‘ سے تعبیر کیا ہے۔

مستقبل کے حوالے سے یہ ایک قابل فہم قدم قرار دیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت قرار دی جا رہی ہے کہ سولہ اور سترہ سال کے زیادہ تر نوجوان ووٹر اس بات سے لاعلم ہو سکتے ہیں کہ بیلٹ پیپر پر ان کا لگایا ہوا ایک چھوٹا سا کراس (X) ان کی زندگیوں پر کس طرح اثر انداز ہو سکتا ہے۔


عوامیت پسند سیاسی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی گزشتہ دس برسوں میں ملکی سیاست میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کے طور پر اپنی ایک باقاعدہ جگہ بنا چکی ہے۔ یہ پارٹی نہ صرف اسلام مخالف ہے بلکہ تارکین وطن یا مہاجرین کی جرمنی آمد کے بھی خلاف ہے۔ اپنے انہی نظریات کی ترویج اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اے ایف ڈی نے ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر انتہائی جارحانہ مہم شروع کر دی ہے۔ اس مہم میں انتہائی فرسودہ اور قدامت پسندانہ خیالات کی تشہیر کرتے ہوئے یوتھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اگرچہ متعدد سیاسی پارٹٰیاں ٹک ٹاک اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر مہم چلا رہی ہیں لیکن چونکہ اے ایف ڈی جذبات سے کھیل رہی ہے، اس لیے بالخصوص ٹک ٹاک پر شیئر کی جانے والی اس کی انتخابی مہم کی ویڈیوز بہت زیادہ مرتبہ دیکھی جا رہی ہیں۔ رائٹ ونگ انتہا پسند اور یورپی پارلیمان کے لیے اے ایف ڈی کے ایک اہم امیدوار ماکسیمیلیان کراہ، خود کو ڈیٹنگ ایکسپرٹ بھی قرار دیتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو محبت اور سیکس کے بارے میں مشورے بھی فراہم کرتے ہیں۔


کراہ نے اپنی ایک ویڈیو میں کہا، ''حقیقی مرد رائٹ ونگ ہوتے ہیں، حقیقی مرد تصورات رکھتے ہیں، حقیقی مرد محب وطن ہوتے ہیں، پھر ایک گرل فرینڈ ملتی ہے۔‘‘ ان کی یہ ویڈیو ٹک ٹاک پر ایک ملین سے بھی زائد مرتبہ دیکھی جا چکی ہے۔ اپنی ایک اور ویڈیو میں کراہ نے کہا کہ 'آپ کی ماں جب عمر رسیدہ ہو گی تو وہ غریب ہو چکی ہو گی‘ اور ایک ویڈیو میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ 'حکومت آپ سے نفرت کرتی ہے‘۔

ایسا لگتا ہے کہ کراہ نے جرمنوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ پولیٹیکل کنسلٹنٹ یوہانس ہِلیے کی طرف سے جرمن پبلک براڈکاسٹر زیڈ ڈی ایف کو فراہم کردہ ایک تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اے ایف ڈی کے پارلیمانی دھڑے کی جانب سے پوسٹ کی جانے والی ٹک ٹاک ویڈیوز دیگر جماعتوں کی طرف سے شائع کردہ ویڈیوز کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ناظرین تک پہنچ رہی ہیں۔


اے ایف ڈی کے مقامی نمائندوں اور دائیں بازو کے بااثر افراد سے تعلق رکھنے والے اکاؤنٹس بھی اسی طرح کا مواد پیش کر رہے ہیں، جو ٹک ٹاک پر بار بار دیکھا جا رہا ہے اور آگے شیئر بھی کیا جا رہا ہے۔ شعبہ درس و تدریس کے ماہر کلاؤس ہوریلمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آج کل کی نسل نے آن لائن ہی نشوونما پائی ہے اور یہ ٹولز ان کے لیے انتہائی اہم ہیں، ''یہ صرف ڈیجیٹل چینلز کے ذریعے ہی معلومات تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور اسی کے ذریعے کمیونیکیٹ کرتے ہیں۔ انہی چینلز کے ذریعے یہ نسل سیاسی جماعتوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرتی ہے۔‘‘

جرمنی کے ٹین ایجر بچوں کے لیے خبروں کا اہم وسیلہ بھی ٹک ٹاک بن چکا ہے۔ کلاؤس ہوریلمان کے بقول جرمنی کی دیگر سیاسی پارٹیاں آن لائن توجہ حاصل کرنے میں کافی پیچھے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اس ریس میں اے ایف ڈی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔


ماہر تعلیم کلاؤس ہوریلمان نے ڈٰی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں اس بات پر حیرت نہیں کہ کٹر نظریات کی حامل سیاسی جماعت اے ایف ڈی نوجوانوں میں اتنی مقبول کیوں ہو رہی ہے۔ ان کے بقول نوجوان اور فرسٹ۔ٹائم ووٹر کچھ وجوہات کی بنا پر خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔

کووڈ انیس کی عالمی وبا کے دوران ہونے والی اسکولوں کی بندش، لاک ڈاؤنز اور بیماری کے خوف نے بچوں اور یوتھ کو زیادہ متاثر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُس وقت کے بارہ یا تیرہ سال کی عمر کے بچوں میں یہ احساس پیدا ہوا تھا کہ ان کی زندگیاں مزید ان کے کنٹرول میں نہیں رہیں۔ یہی بچے اب یورپی پارلیمان کے الیکشن میں ووٹ دیں گے۔


کلاؤس ہوریلمان کے مطابق ان بچوں میں ماحولیاتی حوالے سے حساسیت بھی بہت زیادہ ہے اور یہ قابل رہائش جگہ کے کم ہو جانے اور بڑھاپے میں غربت کے خوف میں بھی مبتلا ہیں۔ اس صورتحال میں کلاؤس ہوریلمان کہتے ہیں، ''اے ایف ڈی جیسی جماعت ان کے لیے بہترین ہے کیونکہ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ حکومتیں اب تک ان کے خدشات کو دور کرنے میں ناکام رہی ہیں۔‘‘

جرمنی کے کچھ صوبوں میں اٹھارہ تا چوبیس برس کی عمر کے ووٹروں میں اے ایف ڈی کی مقبولیت بڑھی ہے۔ اس صورت حال میں اپنا حتمی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کلاؤس ہوریلمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپی پارلیمان کے آئندہ الیکشن میں اے ایف ڈی اچھی پوزیشن میں ہو گی۔ یہ الیکشن اس برس چھ تا نو جون کو ہونا طے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔