اُردو اپنی غنائیت اور موسیقیت کے سبب ہی الگ ہے، گلزار

سوشل میڈیا نے نہ صرف محبت کی گرمجوشی کو کم کر دیا ہے بلکہ ایک طرح سے اس کی کشش بھی کم ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے خواتین مصنفین نے اپنے خیالات کا اظہار جے پور میں جاری ادبی میلے میں کیا۔

اُردو اپنی غنائیت اور موسیقیت کے سبب ہی الگ ہے، گلزار
اُردو اپنی غنائیت اور موسیقیت کے سبب ہی الگ ہے، گلزار
user

ڈی. ڈبلیو

مشہور شاعر جاوید اختر نے ’ہیش ٹیگ می ٹو‘ تحریک کی حمایت کی تو نینا لال قدوائی، منجما بھٹاچاریہ، نمتا بھنڈاری نے یہ خیال پیش کیا کہ اس کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی سے’میرا بھروسہ‘ جیسی مہم بھی چلے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

جے پور ادبی میلے میں اس مرتبہ بھی خاص موضوعات کا انتخاب کیا گیا تھا، جن میں ’اسلام ملٹی پل ہسٹریز‘ کے تحت سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ ہندوستانی اسلام مغربی ایشیا کے اسلام سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہاں کا اسلام دوسرے مذاہب سے بھی قدرے متاثر ہے۔ حالانکہ تصور اور عقیدے کی حد تک سب کچھ یکساں ہے۔ لیکن اس کی پیش کش اور تشریحات الگ الگ ہیں۔‘‘ ان کے ہمراہ اس سیشن میں رانا صفوی اور ذوالفقار ہجری بھی تھے۔

ایک دوسرے سیشن ’مغلوں نے ہمارے لیے کیا کیا‘ میں رانا صفوی اور پاروتی شرما کے ساتھ ’اورنگ زیب دا مین اینڈ دا مِتھ ‘ کی مصنفہ آڈرے ٹرسکے بھی تھیں، جنہوں نے بتایا کہ اورنگ زیب سے بہت پہلے ہی ہندو راجاؤں نے آپس میں چپقلش اور سیاسی رنجشوں کے سبب مندروں کو منہدم کرنے کی شروعات کر دی تھیں۔

ادبی میلے کا سب سے مصروف ترین دن اتوار تھا، جو بالی ووڈ کی ہیروئن منیشا کوئیرالا کے نام ہو گیا۔ انہوں نے کینسر سے جنگ کے اپنے ذاتی قصے بیان کیے، جو انہوں نے اپنی ایک کتاب میں رقم کیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کینسر نے انہیں زندگی کی اہمیت کا سبق سکھا دیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا ان میں ابھی بھی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا حوصلہ باقی ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی میں خوب تالیاں بجیں اور بجتی ہی گئیں۔ ان تالیوں نے ششی تھرور کے لئے بجی تالیوں کی یاد تازہ کر دی۔ میلے کے دوسرے دن ششی تھرور کا نام اناؤنس ہونے پر دیر تک زوردار تالیاں بجی تھیں۔

سماج اور ذات پات کے موضوع پر میلے میں کنڑا زبان کے ادیب جینت کاکنی کا یہ فقرہ خوب چلا کہ یہ تو سانپ سیڑھی جیسا ہے۔ اس موضوع پر میلے میں ایک ڈرامہ بھی پیش کیا گیا۔

جے پور ادبی میلہ عالمی شہرت یافتہ ادیب اور شاعر گلزار کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس مرتبہ بھی وہ تشریف لائے اور چٹکی لی کہ ان کے نام سے واٹس اپ پر ’گڈ مارننگ‘ میں جو نظمیں لوگ پوسٹ کر رہے ہیں، وہ دراصل ان کی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو دراصل اپنی غنائیت اور موسیقیت کے سبب ہی الگ زبان ہے ورنہ ہندی اور اردو میں فرق ہی کیا؟ انہوں نے کہا کہ کہانیوں سے گانے بنتے ہیں اور ہر گانے کے پیچھے ایک کہانی بھی ہوتی ہے۔ اس مرتبہ گلزار کے ساتھ ان کی پروڈیوسر بیٹی میگھنا گلزار، جنہیں گلزار پیار سے بوسکی کہتے ہیں، بھی آئیں اور ایک سیشن میں باقاعدہ حصہ لیا۔

مشہور فلمی شاعر جاوید اختر اور ان کی اداکارہ بیگم شبانہ اعظمی بھی میلے میں مدعو تھیں، جنہوں نے رخشندہ جلیل کے ساتھ بات چیت میں اپنے ابّا یعنی کیفی اعظمی کی اس نظم ’عورت‘ کے بارے میں بتایا، جو کیفی نے حیدرآباد کے ایک مشاعرے میں پڑھی تھی اور جسے سن کر ان کی اماں شوکت نے ان سے بیاہ رچانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

میلے میں جیفری آرچر نے بتایا کہ ان کی کتاب ’ناٹ لیس اے پینی، لیس ناٹ اے پینی مور‘ کو سولہ پبلیشرز نے شائع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ میلے میں ہندی کے مشہور ادیب و شاعر اُدئے پرکاش نے سوربھ دِویدی کے ساتھ بات کرتے ہوئے جے این یو کے حالیہ تنازعے کے پس منظر میں یاد دلایا کہ جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ پر یہ سوچ کر بم گرایا گیا تھا کہ اب جرمنوں سے علم کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن ایسا کہاں ہوا؟ انہوں نے عصر حاضر کی سیاست پر ایک نظم بھی سنائی۔

’’جب دو ہاتھی لڑتے ہیں

تو سب سے زیادہ کچلی جاتی ہے جنگلی گھاس

اور جنگل سے بھوکی لوٹ آتی ہے گائے۔‘‘

جے پور ادبی میلہ دراصل اب میلے سے بھی آگے ایک بہت بڑے ادبی، ثقافتی اور تہذیبی کارنیوال میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس سال ایک اندازے کے مطابق چار لاکھ سے زائد افراد وہاں پہنچے۔ ان میں زیادہ تر نو دولتیے ادیب اور شاعر تھے۔ یہ دور حاضر کا وہ طبقہ ہے، جو ادب سے زیادہ ادبی شخصیتوں کا دلدادہ ہے اور ان کے ساتھ سیلفی لینا بھی ان کا ایک اہم مشغلہ ہے۔

جے پور ادبی میلے میں دن بھر ادبی مذاکروں کے بعد شام ہی سے موسیقی کی محفل جم جاتی ہے اور رات دیر تک کھانا پینا چلتا رہتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اردو ہندی اور دوسری ہندوستانی زبانوں کے زیادہ تر ادیب و شاعر اس میلے میں شرکت نہیں کر پاتے ہیں۔ ہندی کے مشہور مصنف اکھلیش کا کہنا ہے کہ جے پور ادبی میلہ دراصل ان فیشن پرست لوگوں کا سالانہ جلسہ ہے، جو سماج کے اونچے طبقات میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور مشہور شخصیات کے ارد گرد نظر آتے رہتے ہیں۔

شاید اسی لیے جے پور میں انہی تاریخوں میں انجمن ترقی پسند مصنفین راجستھان کی جانب سے جواباً ایک مساوی ادبی میلے کا ہر سال اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں وہ تمام ادیب شرکت کرتے ہیں، جنہیں جے پور ادبی میلے کی چمک دمک، ٹھاٹ باٹھ اور آسائشیں راس نہیں آتیں۔

یہ ادبی میلہ بھی پانچ دن تک چلتا ہے۔ اس میں بھی اچھی خاصی بڑی تعداد میں ہندوستانی زبانوں کے ادیب و شاعر ہر سال شرکت کرتے ہیں۔ اس سال اس میلے میں کشمیر سے لے کر نوٹوں کی بندش جیسے موضوعات پر سنجیدہ گفتگو ہوئی لیکن جے پور ادبی میلے کے سامنے یہ میلہ سرخیوں میں نہیں آ پاتا اور نہ ہی موضوع گفتگو بنتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔