لاؤڈ اسپیکروں پر اذان، جرمنی میں مزید کئی مساجد کی درخواستیں

جرمن میں لاؤڈ اسپیکروں پر اذان دینے سے متعلق دو سالہ ماڈل پروجیکٹ کے دوران ہی مزید کئی مسلم برادریوں کی طرف سے جمعے کی نماز سے پہلے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی اجازت کے لیے باقاعدہ درخواستیں دے دی گئی ہیں۔

لاؤڈ اسپیکروں پر اذان، جرمنی میں مزید کئی مساجد کی درخواستیں
لاؤڈ اسپیکروں پر اذان، جرمنی میں مزید کئی مساجد کی درخواستیں
user

Dw

کولون شہر کی خاتون میئرہینریئٹے ریکر نے، جو کسی بھی سیاسی جماعت کی رکن نہیں ہیں، گزشتہ ماہ کے آغاز سے دو سالہ مدت کے ایک ایسے ماڈل پروجیکٹ کی منظوری دے دی تھی، جس کے تحت مقامی مسلمانوں کی شہر کے ایہرن فَیلڈ نامی علاقے میں واقع مرکزی مسجد میں ہر جمعے کی نماز سے قبل لاؤڈ اسپیکر پر اذان دی جا سکتی ہے۔

یہ اجازت جس مسجد میں لاؤڈ اسپیکروں پر باقاعدہ اذان کے لیے دی گئی تھی، اس کا انتظام جرمنی میں کئی ملین ترک نژاد مسلمانوں کی مساجد کی نمائندہ مرکزی تنظیم دیتیب (Ditib) چلاتی ہے۔


دس دیگر مسلم برادریوں کی طرف سے بھی درخواستیں

کولون شہر کی انتظامیہ کی ایک ترجمان نے اس بارے میں جمعرات گیارہ نومبر کے روز نیوز ایجنسی کے این اے کو بتایا کہ تقریباﹰ چھ ہفتے قبل اس ماڈل پروجیکٹ کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مزید دس مقامی مسلم تنظیموں کی طرف سے بھی یہ درخواست دی جا چکی ہے کہ انہیں بھی مساجد میں جمعے کے روز لاؤڈ اسپیکروں پر نماز جمعہ کی اذان دینے کی باقاعدہ اجازت دی جائے۔

قبل ازیں کولون سے شائع ہونے والے اخبار 'کُلنر شٹڈ اَنسائگر‘ نے بھی اپنی آج کی اشاعت میں کولون شہر کی انتظامیہ کی طرف سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایسی اولین درخواستوں کی تصدیق کر دی تھی۔


اخبار کے مطابق ترک نژاد جرمن مسلمانوں کی مساجد کی مرکزی تنظیم دیتیب نے کہا ہے کہ وہ کولون کے ایہرن فَیلڈ نامی علاقے میں قائم مرکزی مسجد کے علاوہ شہر میں پانچ اور مقامی مساجد کا انتظام بھی چلاتی ہے۔ تاہم جن دس دیگر مساجد نے اب مؤذن کی طرف سے جمعہ کی سہ پہر لاؤڈ اسپیکر پر باقاعدہ اذان کی اجازت کی درخواستیں دی ہیں، وہ دیتیب کی مساجد نہیں ہیں۔

لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی شرائط

جرمنی میں مسلمان اپنی مساجد میں عام طور پر لاؤڈ اسپیکروں پر اس طرح اذان نہیں دے سکتے کہ وہ دور دور تک سنائی دیتی ہو۔ ایسا صرف ان چھوٹے لاؤڈ اسپیکروں کی مدد سے ہی کیا جا سکتا ہے، جن کی آواز مساجد کے اندر اور ان سے ملحقہ کمیونٹی مراکز تک میں سنی جا سکتی ہو۔


کولون کی بلدیاتی انتظامیہ نے جس ماڈل پروجیکٹ کی منظوری یکم اکتوبر سے دی تھی، اس کے تحت شہر کی چند مساجد میں جمعے کی نماز سے پہلے لاؤڈ اسپیکروں پر اذان دیے جانے کی چند لازمی شرائط بھی ہیں۔ ان شرائط میں یہ بھی شامل ہیں کہ مؤذن کی طرف سے اذان کا دورانیہ پانچ منٹ سے زیادہ نہ ہو، لاؤڈ اسپیکروں کی آواز انتہائی اونچی نہ ہو اور اذان دینے سے پہلے ہمسایوں کو اطلاع بھی کی جائے۔

خاتون مئیر کی اجازت کے حق میں دلیل

کولون کی مئیر ریکر نے جب ستمبر میں یہ اعلان کیا تھا کہ اس ماڈل پروجیکٹ پر عمل درآمد کا آغاز اکتوبر کے اوائل سے ہو جائے گا، تو شہر کی اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے کئی شہری اور سماجی حلقوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی، جس کی وجہ سے یہ منصوبہ کچھ متنازعہ بھی ہو گیا تھا۔


مئیر ریکر کا تاہم کہنا یہ تھا کہ اس منصوبے کا مقصد شہر کی آبادی میں مختلف مذہبی برادریوں کی طرف سے ایک دوسرے کو کھلے دل سے قبول کرنے کی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ ساتھ ہی میئر نے یہ بھی کہا تھا کہ اس فیصلے کی وجہ عوام کا یہ حق ہے کہ ہر کسی کو اپنے عقیدے پر عمل درآمد کی کھلی اجازت ہونا چاہیے۔

گرجے کی گھنٹیوں کی بھی تو اجازت ہے

کولون کی میئر ہینریئٹے ریکر کی اس بظاہر متنازعہ قرار دیے جانے والے منصوبے کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ تھی، ''یہ کہ ہم اپنے شہر میں گرجے کی گھنٹیوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ مؤذن کی آواز بھی سن سکیں، یہ امر ثابت کرتا ہے کہ کولون شہر میں تنوع کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے اور وہ مقامی باشندوں کی زندگیوں میں نظر بھی آتا ہے۔‘‘


اس کے برعکس جن ناقدین نے مقامی مساجد میں لاؤڈ اسپیکروں پر اذان کی اجازت دینے کی مخالفت کی تھی، ان کا دعویٰ تھا کہ اس اجازت کے ساتھ شہر کی خاتون میئر ایک مقامی مذہبی اقلیت کو 'ناجائز ترجیح‘ دینے کی مرتکب ہوئی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔