سیاسی طنز کا ایک عہد ختم، مورٹ ساہل کے چند تاریخی طنزیہ جملے

امریکا میں کئی نسلوں کو متاثر کرنے والے عہد ساز کامیڈین اور طنزیہ اداکار مورٹ ساہل چورانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ اپنے چبھتے ہوئے طنزیہ جملوں کی وجہ سے مشہور تھے ۔

سیاسی طنز کا ایک عہد ختم، مورٹ ساہل کے چند تاریخی طنزیہ جملے
سیاسی طنز کا ایک عہد ختم، مورٹ ساہل کے چند تاریخی طنزیہ جملے
user

Dw

مورٹ ساہل نے تقریباﹰ تین چوتھائی صدی پر محیط اپنےکیریئر کے دوران اپنے عہد کے ہر بڑے سیاسی واقعے کو طنز کا نشانہ بنایا۔ مزاحیہ اداکاری کی تاریخ میں وہ امریکا میں ملکی سیاست اور طرز زندگی کو اپنے منفرد انداز میں صحت مندانہ طنز کا نشانہ بنانے والے پہلے کامیڈین تھے۔

خاص طور پر 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں ان کے شو ایک ایسا ٹریڈ مارک بن گئے تھے، جن میں وہ ہمیشہ انگریزی زبان کے حرف V کی شکل کے گلے والا سویٹر پہنے اور ہاتھ میں ایک اخبار پکڑے اسٹیج پر نمودار ہوتے تھے۔


امریکی اخبارات نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک قریبی دوست کے مطابق مورٹ ساہل کا انتقال امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں ان کے گھر پر ہوا۔ مورٹ ساہل کو ٹیلی وژن پر تفریحی پروگراموں کے بہت سے نقاد جدید سیاسی طنز کا بانی قرار دیتے تھے۔

اپنے عہد کی انتہائی بااثر شخصیات میں شمار ہونے والے مورٹ ساہل کے سٹیج پر ادا کیے گئے چند ایسے طنزیہ جملے جنہیں عالمگیر شہرت ملی اور جو تفریح کے لیے سیاسی طنزیہ اداکاری کا حوالہ بن گئے:


۔ ’’میں نے اپنے قاتل کے ساتھ مل کر انتظام کر لیا ہے کہ مجھے شکاگو میں دفنایا جائے۔ اس لیے کہ میں مرنے کے بعد بھی سیاست میں سرگرم رہنا چاہتا ہوں۔‘‘

۔ امریکا کے تین سابق صدور کے بارے میں مورٹ ساہل کی رائے: ’’جارج واشنگٹن جھوٹ نہیں بول سکتے تھے۔ نکسن کو سچ بولنا نہیں آتا تھا اور رونالڈ ریگن کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کیا ہوتا ہے۔‘‘


۔ ’’قدامت پسند ایک ایسا انسان ہوتا ہے، جو اصلاحات پر یقین تو رکھتا ہے، لیکن جس وقت آپ اس سے بات کر رہے ہوں، اس وقت نہیں۔‘‘

۔ ’’میں سزائے موت دیے جانے کے حق میں ہوں۔ لوگوں کو موت کی سزا دی جانا چاہیے۔ ورنہ وہ سیکھیں گے بھلا کیسے؟‘‘


۔ ’’باراک اوباما کا کہنا ہے کہ ان کی تفریح امریکی آئین کا مطالعہ کرنا ہے، اس میں خامیاں تلاش کرنے کے لیے۔‘‘

۔ ’’میں آج تک کسی ایسے گروہ کا رکن نہیں رہا، جو اتنا بڑا تھا کہ اسے اقلیت کہا جا سکے۔‘‘


۔ ’’جو لوگ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے، وہی اسے نئے سرے سے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔