معروف شامی ادیب اور حکومتی ناقد خالد خلیفہ کا انتقال

شام کے معروف ادیب اور ماضی میں شامی حکمرانوں پر کڑی تنقید کی وجہ سے سرخیوں کا موضوع بننے والے خالد خلیفہ انتقال کر گئے ہیں۔ وہ دمشق میں رہتے تھے اور ان کی عمر انسٹھ برس تھی۔

معروف شامی ادیب اور حکومتی ناقد خالد خلیفہ کا انتقال
معروف شامی ادیب اور حکومتی ناقد خالد خلیفہ کا انتقال
user

Dw

کئی برسوں سے خانہ جنگی کے شکار عرب ملک شام کے دارالحکومت دمشق سے اتوار یکم اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ خالد خلیفہ کے ایک بہت قریبی دوست نے بھی ان کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔

پیدائشی طور پر خالد خلیفہ کا تعلق شامی صوبے حلب کے قصبے مریمین سے تھا۔ وہ ایک معروف ناول نگار بھی تھے اور ٹی وی ڈرامے لکھنے والے ایک کامیاب مصنف بھی۔ اس کے علاوہ ان کے کالم باقاعدگی سے کئی عربی اخبارات میں بھی شائع ہوتے تھے۔ انہیں عرب دنیا کے کئی اعلیٰ ادبی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔


گھر پر تنہائی میں انتقال

خالد خلیفہ کے ایک قریبی دوست اور زندگی کے آخری دنوں میں اس شامی ادیب کے ساتھ کافی زیادہ وقت گزارنے والے صحافی یاروب الیسا نے بتایا، ''ہفتے کے روز انتقال کے وقت خالد خلیفہ دمشق میں اپنے گھر پر اور اکیلے تھے۔ ہم نے انہیں کئی مرتبہ فون کیا اور ہمیں کوئی جواب نہ ملا۔ اس کے بعد ہم ان کے گھر گئے اور دیکھا کہ وہ اپنے صوفے پر بیٹھے تھے اور ان کا انتقال ہو چکا تھا۔‘‘

بعد ازاں شامی دارالحکومت کے عباسین ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ان کی لاش کے معائنے کے بعد کہا کہ خالد خلیفہ کا انتقال حرکت قلب بند ہو جانے سے ہوا تھا۔


شام میں حکمران بعث پارٹی کے کڑے ناقد

خالد خلیفہ کو ملنے والی شہرت کا آغاز 1990ء کی دہائی کے اوائل میں شامی ٹیلی وژن سے نشر ہونے والی ایک بہت مقبول ڈرامہ سیریز سے ہوا تھا، جو انہوں نے لکھی تھی۔ وہ شام میں حکمران بعث پارٹی کے کڑے ناقدین میں شمار ہوتے تھے اور اپنے اخباری کالموں میں بھی اکثر دمشق میں حکمرانوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔

اس شامی ادیب کی خاص بات یہ تھی کہ ان کا اپنے وطن کے حکمرانوں سے متعلق موقف بڑا واضح تھا لیکن 2011ء میں پہلے حکومت مخالف عوامی مظاہروں کے آغاز اور پھر ان کے ایک باقاعد خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لینے کے بعد بھی ان کا فیصلہ یہی تھا کہ وہ اپنا وطن چھوڑ کر بیرون ملک نہیں جائیں گے۔ اس بارے میں انہوں نے 2019ء میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ''میں اب بھی یہاں اس لیے رہتا ہوں کہ یہ میرا ملک ہے۔ میں یہیں پیدا ہوا تھا۔ اور میں یہیں مرنا چاہتا ہوں۔‘‘


'نفرت کی مدح میں‘

خالد خلیفہ کی مشہور ترین تصنیفات میں سے ایک ان کا 2006ء میں شائع ہونے والا ناول 'نفرت کی مدح میں‘ بھی ہے۔ اس ناول کو عرب فکشن کے بین الاقوامی انعام کے لیے شارٹ لسٹ بھی کیا گیا تھا۔ عرب دنیا کا یہ ادبی انعام عرف عام میں عرب بکر پرائز بھی کہلاتا ہے۔ خلیفہ کا یہ ناول دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ یہ ناول حلب سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی جوان شامی خاتون کے بارے میں ہے، جو اپنی بےربط زندگی سے نکلنے کے لیے ایک جہادی تنظیم میں شامل ہو جاتی ہے۔

2013ء میں خالد خلیفہ کا ایک اور ناول شائع ہوا تھا، جس کا عنوان تھا: ''اس شہر کے باورچی خانوں میں کوئی چاقو نہ ہوں۔‘‘ اس ناول پر انہیں نجیب محفوظ لٹریچر پرائز سے نوازا گیا تھا، جو مصر کے اعلیٰ ترین ادابی اعزازات میں سے ایک ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔