آئی سی سی عالمی کپ 2023 سے قبل بی سی سی آئی کی ترجیحات پر کیوں اٹھ رہے سوال؟

بی سی سی آئی کے لیے کمائی کے علاوہ بھی 2022 کچھ اسباب کے پیش نظر ایک اہم سال تھا، کپتان کی شکل میں کوہلی کو ہٹانا، نئے کپتان کی شکل میں روہت کی آمد اور دراوڑ کا کوچ بننا ان اہم اسباب میں شامل ہیں۔

بی سی سی آئی، تصویر آئی اے این ایس
بی سی سی آئی، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

ہندوستان کے پاس سب سے امیر کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی)، سپر اسٹارس سے بھری ٹیم، دنیا کی سب سے بہترین لیگ آئی پی اور لاتعداد صلاحیتیں ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ملک گزشتہ 9 سال سے آئی سی سی کی ٹرافی نہیں جیت پایا ہے، جو ہماری ترجیحات پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ پہلے سے ہی خوشحال بی سی سی آئی نے 2022 میں دو نئی آئی پی ایل ٹیموں (12715 کروڑ روپے) اور میڈیا حقوق کی فروخت (48390 کروڑ روپے) کے ساتھ کچھ بڑی رقوم حاصل کیں، جس کی ہندوستانی کرکٹ کے خیر خواہوں نے تعریف کی۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ حاصل رقوم بالآخر اسٹیک ہولڈرس کے درمیان تقسیم کی جاتی ہے اور ہندوستانی کرکٹ ماحولیاتی نظام کے ہر اہل شخص تک پہنچتا ہے۔

بی سی سی آئی کے لیے کمائی کے علاوہ بھی 2022 کئی اسباب سے اہم رہا۔ کپتان کی شکل میں وراٹ کوہلی کو ہٹانا، نئے کپتان کی شکل میں روہت شرما کی آمد اور کوچ راہل دراوڑ، اور پھر بی سی سی آئی سربراہ سورو گانگولی کو ہٹایا جانا ایسے واقعات تھے جنھوں نے کرکٹ حلقہ میں سرگرمی پیدا کی۔


حالانکہ ایشیا کپ اور آئی سی سی ٹی-20 عالمی کپ میں مایوسی تھی جس نے ہندوستانی کرکٹ شیدائیوں کو سب سے زیادہ تکلیف دی۔ ہندوستانی کرکٹ شیدائیوں کو ان کے گزشتہ ریکارڈ کی وجہ سے کپتان روہت اور کوچ دراوڑ سے بہت امیدیں تھیں۔ جبکہ روہت نے پانچ آئی پی ایل خطاب اور ایک ایشیا کپ جیتا تھا۔ اسی طرح دراوڑ کی کوچنگ میں انڈر-19 ٹیم نے عالمی کپ جیت حاصل کی تھی اور انڈیا-اے فریق کے ساتھ نووارد صلاحیتوں کی وہ پرورش کر رہے تھے۔

ٹی-20 عالمی کپ کی بات کریں تو ہندوستان کو آخری فاتح انگلینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں 10 وکٹ سے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آئی سی سی اوینٹ ہی نہیں، ہندوستان اب نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کے خلاف لگاتار یک روزہ سیریز ہار گیا ہے، جو مستقبل کے بارے میں کچھ سنگین سوال کھڑے کرتا ہے۔ کیا بین الاقوامی مرد کرکٹ بی سی سی آئی اور ہندوستانی کرکٹ کے اسٹیک ہولڈرس کی ترجیحاتی فہرست میں ہے، یا وہ صرف آئی پی ایل کی کاروباری کامیابی سے خوش ہیں؟


کوئی واضح جواب نہیں ہے۔ کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ بی سی سی آئی کھلاڑیوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کر رہا ہے، دنیا کے بہترین پیشہ وروں کو کام پر رکھ رہا ہے، تو وہ مزید کیا کر سکتے ہیں، کیونکہ نتیجہ دینا کوچ اور کھلاڑیوں پر منحصر ہے۔

لیکن ہندوستانی کرکٹ بورڈ کے مین اِن بلو کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے اور آئی سی سی ایونٹس میں ٹیم کی ناکامی کے اصل اسباب کا پتہ لگانے سے کوئی نہیں روکتا ہے۔ اگر کوئی ایشو ہے تو بی سی سی آئی کو اس کا حل تلاش کرنے اور کچھ جرأت مندانہ فیصلہ لینے کی ضرورت ہے۔


2015 آئی سی سی کرکٹ عالمی کپ میں اپنے مایوس کن گروپ اسٹیج سے باہر ہونے کے بعد انگلینڈ نے کچھ سخت فیصلے لیے اور کھیل کے لیے ایک جارحانہ نظریہ اختیار کیا۔ جس کا نتیجہ ہے کہ اب 50 اوور اور ٹی-20 عالمی کپ دونوں کے چمپئن ہیں۔ اسی طرح بی سی سی آئی کو بھی ہندوستانی کرکٹ پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

خیر، ہر کوئی جانتا ہے کہ ہندوستانی کرکٹ میں یہ چیزیں آسان نہیں ہیں جہاں کھلاڑی دیوتا ہوتے ہیں۔ لیکن کسی نہ کسی کو فیصلہ لینا ہی ہوگا۔ کچھ جوابدہی ہونی چاہیے، ورنہ ہندوستانی کرکٹ کو نقصان پہنچتا رہے گا، خاص کر آئی سی سی ایونٹس میں۔


این سی اے (نیشنل کرکٹ اکادمی) سے بھی سوال پوچھے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہندوستانی کرکٹ بار بار ہونے والی کئی چوٹوں سے متاثر ہے۔ حال کے دنوں میں ایسی کئی مثالیں ہیں جب کوئی کھلاڑی زخمی ہو جاتا ہے، ریہیب کے لیے این سی اے جاتا ہے، فٹ ہو جاتا ہے، واپسی کرتا ہے اور صرف دو تین میچوں کے بعد ٹوٹ جاتا ہے۔

گزشتہ تین 50 اوورس کے عالمی کپ میزبانوں (ہندوستان: 2011، آسٹریلیا: 2015، اور انگلینڈ: 2019) کے ذریعہ جیتے گئے ہیں اور ہندوستان آئندہ سال میگا ایونٹ کی میزبانی کر رہا ہے۔ اگر ہم اپنے گھریلو حالات میں ناک آؤٹ میں اچھی کارکردگی نہیں کرتے ہیں تو یہ واقعی شرم کی بات ہوگی۔ آخر کار یہ سب بورڈ، کوچنگ اسٹاف اور کھلاڑیوں کی ترجیحات پر منحصر کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔