عدالتیں بول تو بہت رہی ہیں لیکن کارروائی کیوں نہیں کر رہیں؟

عدالتوں کو چاہئے کہ وہ اگر حقیقت میں عوام کو راحت پہنچانا چاہتی ہیں تو وہ زبانی جمع خرچ نہیں کریں بلکہ اس سمت ٹھوس کارروائی کریں تاکہ نظام درست ہو۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

سوشل میڈیا کو دیکھتے ہوئے خوف آنے لگا ہے، کسی کا فون آ جاتا ہے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی بری خبر تو نہیں ہے۔ کورونا سے متاثر ہونے والوں کی اور اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اتنا غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ لگ رہا ہے جیسے کورونا وائرس نامی ’جنّ‘ دروازہ کے باہر کھڑا ہے اور دروازہ کھولتے ہی گھر میں داخل ہو جائے گا۔ لیکن ایسی بھی خبریں ہیں کہ جن لوگوں نے دروازہ نہیں بھی کھولا ہے اور پوری احتیاط برتی ہے ان کے یہاں بھی یہ ’جنّ‘ نہ جانے کہاں سے گھس گیا ہے۔

پہلے یہ خوف کہ کہیں یہ وائرس ہمیں اپنی لپیٹ میں نہ لے لے اور اگر لپیٹ میں لے لیا تو پھر نفسیاتی سے لے کر زمینی خوف چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے۔ نفسیاتی کی وجہ اور علاج دونوں ہی کا سیدھا رشتہ زمینی خوف سے ہے۔ زمینی خوف یعنی طبی سہولیات کا فقدان، اسپتالوں میں بیڈ کا نہ ملنا، بیڈ مل جائے تو آکسیجن کے انتظام کے لئے فون کرتے کرتے تھک جانا۔ یہ سارا عمل اتنا خوفناک ہے کہ انسان جسمانی طور پر تو پوری طرح متاثر ہوتا ہی ہے ساتھ میں نفسیاتی طور پر بھی ٹوٹ جاتا ہے۔


ان حالات میں کئی ریاستوں کے ہائی کورٹ نے حکومتوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ آکسیجن اور طبی سہولیات کی کمی کو لے کر ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کو روزانہ الٹی میٹم دے رہی ہے، مدراس ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اس سب کے لئے کیوں نہ الیکشن کمیشن کے خلاف قتل کی شکایت درج کی جائے، الہ آباد ہائی کورٹ نے پورے معاملہ کا سخت نوٹس لیا، پٹنہ ہائی کورٹ نے تو یہاں تک کہا کہ کیوں نہ کووڈ مینجمنٹ فوج کو دے دیا جائے۔ عدالت نے اس کو نسل کشی سے بھی تعبیر کر دیا۔

اس ماحول میں جب کہیں کوئی حکومت نہیں نظر آ رہی ہو ایسے وقت میں ہائی کورٹ کے یہ سخت بیان کانوں کوبھی اچھے لگے اور ایسا لگا کہ جیسےعدلیہ سب کچھ دیکھ رہی ہے اور وہ غصہ بھی ہے۔ اس کے بھی دو پہلو ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جج حضرات بھی ہیں تو انسان ہی اور ان کا سماج میں ایک مقام بھی ہے جس کی وجہ سے لوگ ان سے مدد کی امید کرتے ہیں اور جب وہ کسی کی بھی مدد نہیں کر پاتے تو ان میں ایک جھنجھلاہٹ اور غصہ پیدا ہوتا ہے جو سماعت کے دوران ان کے بیانات سے نظر بھی آ تا ہے۔ دوسرا پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے بیان دے کر عوام کے غصہ کو ٹھنڈا کر رہے ہوں۔ مبصرین کا اس پر کہنا یہ ہے کہ کیونکہ کسی بھی ہائی کورٹ نے کوئی حکم نہیں دیا ہے یہ محض بیان ہیں اور بیان سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ مبصرین کی رائے ہے کہ مدراس ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے خلاف بیان تو دے دیا لیکن کیا کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی اور کیا ووٹوں کی گنتی کے دوران سماجی دوری وغیرہ پر عمل نظر آیا۔ کیا کسی عدالت نے طبی سہولیات کے فقدان یا آکسیجن کی قلت کے لئے کسی حکومت، کسی حکمراں یا کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ توکیا یہ کہیں خود کی اچھی شبیہ پیش کرنے کی کوشش بھر تو نہیں ہے۔

عدالتوں کو چاہئے کہ وہ اگر حقیقت میں عوام کو راحت پہنچانا چاہتی ہیں تو وہ زبانی جمع خرچ نہیں کریں بلکہ اس سمت ٹھوس کارروائی کریں تاکہ نظام درست ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔