مہاراشٹر کی ایکناتھ شندے حکومت میں سیاسی اٹھا پٹخ شروع، حکومت سازی کے بعد پہلی بغاوت کا سامنا!

ایکناتھ شندے حکومت کو بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، شیوسینا سے گروپ بدل کر شندے خیمہ کی حمایت کرنے والے دو اہم اراکین اسمبلی نے الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر حالات نہیں بدلے تو وہ حمایت واپس لے لیں گے۔

ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس
ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس
user

سجاتا آنندن

مہاراشٹر کے ایسے دو سب سے متنازعہ اراکین اسمبلی جن کا شندے-فڈنویس حکومت کو حمایت ہے، وہی اب اس حکومت کو گرانے کی کوشش میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔ شندے حکومت کو حمایت دینے والے آزاد رکن اسمبلی روی رانا اور پرہار جن شکتی پارٹی کے بچو کاڈو کے درمیان شروع ہوئی زبانی جنگ اب شندے حکومت پر تلوار کی طرح لٹکنے لگی ہے۔ بچو کاڈو نے الزام لگایا ہے کہ روی رانا نے ایکناتھ شندے سے 50 کروڑ روپے لے کر پالا بدلا ہے۔ کاڈو نے متنبہ بھی کیا ہے کہ چونکہ انھیں شندے حکومت میں کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی ہے، اس لیے وہ ایسے 8 اراکین اسمبلی کو ساتھ لے کر حکومت سے حمایت واپس لے لیں گے جن کو ایکناتھ شندے نظر انداز کر رہے ہیں۔

کاڈو کے الزامات کے جواب میں روی رانا نے الزام عائد کیا ہے کہ کاڈو نے بھی مہاوکاس اگھاڑی حکومت سے حمایت واپس لے کر آسام پہنچنے کے لیے 50 کروڑ روپے لیے تھے۔ قابل ذکر ہے کہ روی رانا رکن پارلیمنٹ کے شوہر ہیں۔ نونیت رانا وہی رکن پارلیمنٹ ہیں جنھوں نے اس سال رمضان کے دوران اذان کی مخالفت میں شکایت درج کرنے کے لیے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے گھر کے باہر ہنومان چالیسا پڑھنے کی کوشش کی تھی۔ ان کے خلاف بدامنی پھیلانے کا معاملہ درج ہے۔


بہرحال، اپنے اوپر لگائے گئے الزام سے تلملائے کاڈو نے کہا ہے کہ وہ تنہا نہیں تھے جو گواہاٹی گئے تھے۔ ایسے میں اگر انھیں 50 کروڑ روپے شندے کی حمایت کرنے کے لیے ملے تھے تو کیا وہ تنہا تھے۔ انھوں نے کہا کہ شندے اور فڈنویس جلد روی رانا سے معافی دلوائیں ورنہ وہ حکومت سے حمایت واپس لے لیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ روی رانا اور کاڈو دونوں ہی امراوتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ویسے تو فی الحال معاملہ انہی دونوں کے درمیان ہے، لیکن سوال اس بات پر اٹھ رہے ہیں کہ ایک ہی علاقے کے دو اراکین اسمبلی کو آخری نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کیوں بڑھاوا دے رہے ہیں۔ کہاوت بھی ہے اور سیاست میں تو اکثر کہا ہی جاتا ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔


غور طلب ہے کہ کاڈو مہاوکاس اگھاڑی حکومت میں وزیر تھے، لیکن انھین شندے-فڈنویس کابینہ میں کوئی جگہ نہیں ملی ہے۔ کاڈو کی پہچان ایک خواہشمند لیڈر کے طور پر رہی ہے اور افسروں کو پیٹنے، داداگری دکھانے اور رابن ہڈ اسٹائل کی سیاست کرنے کے لیے وہ مشہور رہے ہیں۔ ان معاملوں کے سبب انھیں دو مہینے کے لیے جیل بھی جانا پڑا تھا، حالانکہ اس وقت وہ وزیر تھے۔ ویسے شندے اپنی سطح پر کاڈو اور رانا دونوں کو ہی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ رانا تو ایک طرح سے مان گئے لگتے ہیں کہ فڈنویس جو کہیں گے وہ مان لیں گے، لیکن کاڈو نے ضدی رویہ اختیار کر رکھا ہے۔

کاڈو نے کھلی تنبیہ دی ہے کہ اگر یکم نومبر تک رانا نے معافی نہیں مانگی اور الزام واپس نہیں لیا تو وہ ان کے خلاف ہتک عزتی کا مقدمہ تو کریں گے ہی، اس میں شندے اور فڈنویس دونوں کو جوابدہ بنایا جائے گا کہ وہ جواب دیں کہ انھوں نے یا 50 دیگر نے پیسہ لے کر حمایت دی ہے یا نہیں۔ کاڈو نے یہ بھی سوال پوچھا ہے کہ یہ بھی بتایا جائے کہ یہ پیسہ دیا کس نے تھا؟


کاڈو کے اس الٹی میٹم سے شندے اور فڈنویس دونوں ہی گھبرائے ہوئے لگتے ہیں۔ ان کے سامنے نہ نگلتے اور نہ اگلتے والی حالت بن گئی ہے۔ کاڈو اور روی رانا دونوں کے ہی الزام شیوسینا (ادھو بالاصاحب ٹھاکرے) گروپ کے اس الزام کو مضبوطی فراہم کرتے ہیں کہ مہاوکاس اگھاڑی حکومت گرانے کے لیے اراکین اسمبلی کو موٹی رقم دی گئی تھی۔

اس درمیان ادھو ٹھاکرے کے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے نے بھی آگ میں گھی کا کام کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ شندے خیمہ کے کم از کم 10 اراکین اسمبلی ان کے رابطے میں ہیں، کیونکہ وہ شندے حکومت میں اہمیت نہ ملنے اور کام کے طور طریقوں سے ناراض ہیں۔ ان میں سے کچھ تو وزارتی عہدہ نہ ملنے سے خفا ہیں، باقی اس لیے ناراض ہیں کہ شندے ان وعدوں کو پورا نہیں کر پا رہے ہیں جن کے دم پر انھوں نے شیوسینا سے بغاوت کی تھی۔ ان میں سب سے اہم وعدہ تھا کہ ٹھاکرے کنبہ ختم ہو جائے گا اور شیوسینا پر ان کا دبدبہ ہوگا۔


اس سچائی کے ساتھ کہ شیوسینا کا روایتی انتخابی نشان انتخابی کمیشن نے فریز کر دیا ہے اور دسہرا ریلی کے دوران واضح ہو گیا کہ ادھو ٹھاکرے کے لیے لوگوں کے درمیان زبردست ہمدردی ہے، شندے خیمہ میں بے چینی لگاتار بڑھتی جا رہی ہے۔ حالانکہ گنپتی اُتسو اور دیوالی کے موقع پر شندے نے اراکین اسمبلی کے گھروں کا دورہ کر حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے، لیکن حالات اب بھی ان کے ہاتھ سے باہر ہی نظر آ رہے ہیں۔

ایکناتھ شندے کی دقتیں یہیں ختم نہیں ہوتی ہیں۔ شیوسینا کے پرانی باغی نارائن رانے کے بیٹے کو بھی شندے حکومت میں وزارتی عہدہ نہیں ملا ہے، جب کہ رانے نے اپنے پرانے روابط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیوسینا کے کئی اراکین اسمبلی کو توڑنے میں اہم کردار نبھایا تھا۔ مانا جا رہا ہے کہ نارائن رانے کو امید تھی کہ شیوسینا توڑنے کے بعد انھیں وزیر اعلیٰ کا عہدہ مل جائے گا، لیکن لیکن بازی ایکناتھ شندے مار لے گئے۔ ایسے میں شندے کو نارائن رانے کی اندرونی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔


ذرائع بتاتے ہیں کہ نارائن رانے کے پاس بھی کم از کم نصف درجن اراکین اسمبلی کی حمایت ہے اور اسی کے دَم پر وہ اپنے بیٹے کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن فڈنویس اس کے لیے کسی صورت تیار ہوتے دکھائی نہیں دیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔