روس-یوکرین بحران: دو مضبوط فوجی طاقتوں کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا نتیجہ ہے یہ جنگ

حالات انتہائی سنگین ہیں، لیکن پھر بھی ہمیں یہ کہنے سے فی الحال بچنا چاہیے کہ تیسری جنگ عظیم شروع ہونے والی ہے، کشیدگی کے وقت میں بڑھا چڑھا کر کچھ بھی کہنے سے پرہیز کرنا بہتر ہوگا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بھرت ڈوگرا

روس-یوکرین جنگ نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حالانکہ کچھ ہفتوں سے جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے، لیکن پھر بھی جنگ کے خطرناک نتائج کو دیکھتے ہوئے امید تھی کہ وقت رہتے ہوئے حالات کو سنبھالا جا سکے گا۔ حالانکہ ایسا نہ ہو سکا اور جنگ شروع ہو گیا۔ حالات انتہائی سنگین اور فکر انگیز ہیں، لیکن پھر بھی ہمیں یہ کہنے سے فی الحال بچنا چاہیے کہ تیسری جنگ عظیم شروع ہونے والی ہے۔ کشیدگی کے وقت بڑھا چڑھا کر کچھ بھی کہنے سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہوگا۔ پھر بھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حالات بے حد تشویشناک ہیں۔

آخر حالات اس حد تک کیسے بگڑ گئے؟ روس کے صدر پوتن جب تک یہ کہہ رہے تھے کہ روس کو اپنی حفاظت کا اور اپنے کو ناٹو کی بڑھتی جارحیت و نزدیکی سے بچانے کا پورا حق ہے، تب تک دنیا کے بہت سے لوگ ان سے پوری ہمدردی رکھتے تھے۔ لیکن پوتن کی حملہ آور کارروائی کے بعد ان لوگوں کی ہمدردی جاری رکھنا ممکن نہیں ہو سکے گا اور حالات کو سنبھالنے کی جگہ پر زیادہ جارحانہ بنانے کی تنقید انھیں برداشت کرنی پڑے گی۔


دوسری طرف اگر کچھ وقت پیچھے جا کر یہ سمجھا جائے کہ یہ کشیدگی کیوں بڑھی تو متحدہ ریاست امریکہ کو زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک وقت ایسا تھا جب سرد لہر کے بعد امن و امان کے نئے دور کی امید کی جا رہی تھی۔ اس وقت متحدہ ریاست امریکہ کو روس کے تئیں دوستی و صلح سمجھوتے کی راہ اختیار کرنی چاہیے تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو اس سے امن عالم اور انسداد اسلحہ میں بہت مدد ملتی۔ یہ روس کے لیے ہی نہیں امریکہ کے لیے بھی، یوروپ و پوری دنیا کے لیے بھی بہتر ہوتا۔ لیکن امریکہ نے یہ پالیسی نہیں اختیار کی اور روس کے مشکل حالات کا فائدہ اٹھا کر اس نے چھیڑ چھاڑ کی، پریشان کیا۔

خصوصاً امریکہ کی اس پالیسی سے روس کو بہت پریشانی ہوئی کہ جو جغرافیائی اور تاریخی سطح پر روس کے سب سے نزدیکی ملک ہیں اور رہے ہیں، ان میں امریکہ نے رسائی کی اور وہاں روس مخالف حکومتوں کی تشکیل کی کوشش کی۔ ایسے ممالک کو ناٹو کا رکن بنانے کی کوشش کی۔ اگر ناٹو قوتوں کے میزائل روس کی سرحد کے پاس ہی تعینات ہو جائیں تو روس کی سیکورٹی خطرے میں پڑتی ہے۔ اس لیے روس نے کچھ وقت تک تو ان کوششوں کو برداشت کیا، لیکن بعد میں زیادہ سرگرم طور سے اس کی مخالفت کرنی شروع کی۔


خصوصاً یوکرین کو لے کر روس زیادہ فکرمند رہا ہے۔ یہاں امریکہ نے روس مخالف حکومت کی تشکیل میں سرگرم کردار نبھایا۔ اس حکومت نے روسی نژاد کے شہریوں پر مظالم کیے۔ اتنا ہی نہیں، امریکہ نے اور اس کے ذریعہ حمایت یافتہ یوکرین کی حکومت نے یوکرین کے نازی وادی سوچ کے جنگجو اشخاص و تنظیموں کو زیادہ فروغ دیا جب کہ یہ روس اور روسی نژاد کے اشخاص کی مخالفتل میں سب سے جارحانہ و سخت گیر ہیں۔ ان حالات میں روس نے یوکرین کے کچھ علاقوں پر اپنا کنٹرول پہلے بھی بڑھایا تھا اور حال میں بھی اس سمت میں قدم اٹھائے تھے۔ لیکن حملے کے بعد حالات بدل گئے ہیں اور پوتن کو بھی جارحیت کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ تنقید برداشت کرنی پڑی ہے۔

درحقیقت اس حملے سے روس کو بھی طویل مدتی سطح پر نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ یوکرین میں روس کی مخالفت کی بنیاد زیادہ وسیع ہوگی۔ پورے عالمی سطح پر دیکھیں تو اس وقت دنیا بہت سنگین مسائل سے نبرد آزما رہا ہے، جیسے ماحولیاتی تبدیلی اور تباہ کن اسلحوں کا جمع ہونا۔ جنگ و کشیدگی کے ماحول میں ان سبھی سنگین مسائل کے حل پیچھے چھوٹ جائیں گے اور دنیا میں اسلحہ کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ قلیل مدتی سطح پر مہنگائی بڑھے گی اور وبا کے سبب پہلے سے بحران کی شکار متعدد ممالک کی معیشت کی مشکلیں بڑھ جائیں گی۔


بڑی دنیاوی کشیدگیوں کو سلجھانے میں اقوام متحدہ کو حال کے وقت میں کوئی بڑی کامیابی تو نہیں ملی ہے، لیکن پھر بھی اسے بھرپور کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ یہ جنگ جلد ختم ہو۔ اس کے علاوہ ہندوستان سمیت دنیا کے دیگر اہم ممالک کو بھی اس سمت میں بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔