رام بڑے یا مودی؟

مرلی منوہر جیسے بہت سے لیڈروں کی اس تحریک کے دوران ماحول بنا کر تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ جب آڈوانی نے رتھ یاترا نکالی تو رتھ بان نریندر مودی تھے لیکن اس وقت تک ان کو کوئی نہیں جانتا تھا

<div class="paragraphs"><p>یو این آئی</p></div>

یو این آئی

user

سہیل انجم

کچھ لوگوں کو ممکن ہے کہ مذکورہ بالا عنوان پسند نہ آئے یا انھیں اسے اس میں رام جی کی تضحیک و تحقیر نظر آئے۔ یا کچھ لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ مضمون نگار نے نریندر مودی کی مدح میں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ حالانکہ یہ تمام قیاس آرائیاں غلط ہیں۔ نہ اس میں رام جی کی تحقیر و توہین ہو رہی ہے اور نہ ہی یہ مودی کی مدح و ستائش ہے۔ یہ ایک سوال ہے جو وزیر اعظم مودی کی رام مندر سے متعلق سیاست کے بطن سے پیدا ہوا ہے۔ اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ البتہ قارئین زمینی حقائق کا تجزیہ کر کے اس سوال کا جواب ڈھونڈ سکتے ہیں۔

ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی تخم ریزی وشو ہندو پریشد نے کی اور بی جے پی نے اس کو کھاد پانی دے کے ایک لہلہاتی فصل میں تبدیل کر دیا۔ اس میں وشو ہندو پریشد کے علاوہ دو اور شخصیات کا ہاتھ رہا ہے اور وہ دونوں اسی جماعت سے وابستہ رہے ہیں جو مرکز میں حکمراں ہے۔ یعنی اٹل بہاری واجپئی اور لال کرشن آڈوانی۔ اس تحریک میں مرلی منوہر جوشی اور دیگر بہت سے لیڈروں نے اپنی خدمات پیش کیں اور اس طرح ایک ماحول بنا کر تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ جب ایل کے آڈوانی نے رتھ یاترا نکالی تھی تو اس کے سارتھی یعنی رتھ بان نریندر مودی تھے۔ اس وقت تک ان کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ لیکن آج جبکہ عظیم الشان رام مندر کا افتتاح ہونے والا ہے تو وی ایچ پی اور بی جے پی نے بلکہ مودی نے آڈوانی اور جوشی کو بھلا دیا ہے۔ واجپئی زندہ ہوتے تو ان کا بھی یہی حشر ہوتا۔


اب تو صرف ایک مرکز ہے اور وہ ہے نریندر مودی کی ذات۔ اس ذات کے آگے وہ بھی چھوٹے پڑ گئے ہیں جن کے نام کی سیاست کی جا رہی ہے۔ یعنی مریادا پرشوتم رام چندر جی۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ بی جے پی خود کہہ رہی ہے۔ چھتیس گڑھ بی جے پی نے ایک پوسٹر بنایا تھا جس میں نریندر مودی کا قد بہت بلند ہے اور رام جی ان کی انگلی تھامے ہوئے ہیں۔ دونوں رام مندر کی عمارت کو دیکھ رہے ہیں۔ اس تصویر سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ مودی جی ہی بڑے ہیں اور رام جی تو چھوٹے ہیں۔ اور اگر مودی جی نہیں ہوتے تو رام جی کو ان کا گھر نہیں ملتا۔

بی جے پی دراصل اسی کا پرچار کر رہی ہے۔ یہ بات درست بھی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی وجہ سے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہوئی ہے۔ انھوں نے بغیر کسی خون خرابے کے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کو دلوا دی۔ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے ہاتھوں رام مندر کے حق میں فیصلہ کروا دیا۔ عدالت نے مندر کی تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ بھی بنوا دیا اور اسی ٹرسٹ کے ہاتھوں رام مندر کی تعمیر ہو گئی۔ لیکن اس کا اصل کریڈٹ نریندر مودی کو ہی جاتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے مندر کا بھومی پوجن کیا تھا اور اب وہی 22 جنوری کو اس کا افتتاح بھی کریں گے۔


اس سے قبل انھوں نے 30 دسمبر کو ایودھیا کا دورہ کیا اور وہاں انھوں نے پندرہ ہزار سات سو کروڑ روپے کے ترقیاتی پراجیکٹوں کے تحت بنائے جانے والے ریلوے اسٹیشن اور ایئرپورٹ کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر انھوں نے ایودھیا میں تقریباً پانچ گھنٹے کا روڈ شو بھی کیا۔ مودی کو روڈ شو کرنے کا بڑا شوق ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں روڈ شو ضرور کرتے ہیں۔ روڈ شو کے دوران گودی میڈیا پورے دن انھی کی خبر چلاتا اور پورے روڈ شو کو کور کرتا ہے۔ اس دن ٹی وی پر صرف اور صرف مودی جی نظر آتے ہیں۔ یہی سب کچھ ایودھیا میں بھی ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ ضلع کے تمام بلاک پرمکھوں کو بھیڑ جٹانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ لہٰذا خوب بھیڑ نظر آئی اور مودی جی نے روڈ شو کر کے ایک بار پھر اپنی امیج چمکانے کی کوشش کی۔

اس موقع پر ٹی وی چینلوں پر یہ بھی بتایا جا رہا تھا کہ جب 22 جنوری کو مودی جی رام جی کی پران پرتشٹھا کریں گے یعنی ان کی مورتی کا افتتاح کریں گے تو رام جی بہت خوش ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ابھی تو اپنی آنکھیں موندے ہوئے ہیں جب مودی جی پردہ سرکار کر ان کی مورتی کا ادگھاٹن کریں گے تو رام جی کو سب سے پہلا درشن مودی کا ہوگا۔ یعنی مودی رام کے درشن نہیں کریں گے بلکہ رام مودی کے درشن کریں گے۔ اس روز کتنا عظیم الشان پروگرام ہوگا اس کا اندازہ 30 دسمبر کے پروگرام سے لگ گیا۔ اس کو ٹریلر سمجھیے اور 22 کو ہونے والے پروگرام کو اصل فلم سمجھیے۔


حالانکہ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر آج رام جی ہوتے تو یہ سب دیکھ کر بہت ناراض ہوتے۔ وہ یہ بالکل نہیں چاہتے کہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کو توڑ کر اس کی جگہ پر ان کا مندر بنایا جائے۔ رام مندر تحریک اور بابری مسجد کے انہدام کے موضوع پر کیفی اعظمی نے جو نظم لکھی ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ نظم تو چھوٹی ہے لیکن پوری کہانی بیان کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ آج اگر رام جی ہوتے تو وہ ایک بار پھر بن باس اختیار کر لیتے۔

آئیے اس نظم کو ملاحظہ کرتے ہیں:

رام بن باس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے

یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے

رقصِ دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہوگا

چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہوگا

اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے

جگمگاتے تھے جہاں رام کے قدموں کے نشاں

پیار کی کاہکشاں لیتی تھی انگڑائی جہاں

موڑ نفرت کے اسی راہ گزر میں آئے

دھرم کیا ان کا تھا، کیا ذات تھی، یہ جانتا کون

گھر نہ جلتا تو انہیں رات میں پہچانتا کون

گھر جلانے کو مرا لوگ جو گھر میں آئے

شاکاہاری تھے میرے دوست تمہارے خنجر

تم نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر

ہے مرے سر کی خطا، زخم جو سر میں آئے

پاؤں سرجو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے

کہ نظر آئے وہاں خون کے گہرے دھبے

پاؤں دھوئے بنا سرجو کے کنارے سے اٹھے

رام یہ کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھے

راجدھانی کی فضا آئی نہیں راس مجھے

چھ دسمبر کو ملا دوسرا بن باس مجھے


رام جب بن باس گئے تو راج پاٹ سب چھوڑ کر گئے۔ انھیں حکومت کا کوئی لالچ نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو وہ جنگل جاتے ہی نہیں۔ بلکہ اپنے پتا کے وچن کو مسترد کر کے راج گدی پر بیٹھ جاتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے تیاگ اور ترکِ شہنشاہیت کا ایسا ثبوت دیا جس کی مثال بہت کم ملے گی۔ ایک وہ رام تھے جو حکومت چھوڑ کر جنگل سدھار گئے ایک مودی جی ہیں جو حکومت کے لیے رام جی کا نام لے رہے ہیں۔ وہ رام کے نام پر جو کچھ کر رہے ہیں صرف سیاست کی خاطر کر رہے ہیں۔ رام جی کے آدرش اگر پامال ہوتے ہیں تو ہوں لیکن اقتدار ملنا چاہیے، حکومت قائم رہنی چاہیے۔ اسی لیے یہ سوال ذہن میں آیا کہ رام بڑے ہیں یا مودی۔ بہت سے لوگوں کا یہ کہنا بڑی حد تک درست لگتا ہے کہ رام جی اگر آج دوبارہ آ جائیں اور یہ سب چھوڑنے کو کہیں تو یہ لوگ رام جی کو چھوڑ دیں گے یہ سب نہیں چھوڑیں گے۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ 22 جنوری کو کیا ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔